دنیا میں انسان اگر کسی چیز سے پہچانا جاتا ہے تو وہ اُس کے کردار، محبت اور رواداری سے۔ مذہب انسان کے باطن کو اُجالنے کا ذریعہ ہے، اور تہوار اُس روشنی کی علامت ہیں جو دلوں میں اُمید جگاتی ہے۔ انہیں روشنیوں میں ایک حسین کرن دیوالی ہے ہندو برادری کا وہ تہوار جو صرف چراغوں کا نہیں بلکہ انسانیت، اُمید اور خیر کا استعارہ ہے۔
دیوالی کا لفظ سنسکرت کے لفظ “دیپاولی” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے “چراغوں کی قطار”۔ یہ تہوار روشنی، اُمید اور نیکی کی فتح کا نشان ہے۔ برصغیر میں صدیوں سے ہندو برادری اسے نہ صرف مذہبی جذبے کے ساتھ بلکہ سماجی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کے مظہر کے طور پر مناتی آئی ہے۔
دیوالی کے موقع پر گھروں، مندروں اور گلیوں کو چراغوں، مٹی کے دیوں اور برقی قمقموں سے روشن کیا جاتا ہے۔ مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے، اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوشی بانٹتے ہیں۔ یہ تہوار دراصل اندھیرے پر روشنی، جھوٹ پر سچائی اور نفرت پر محبت کی فتح کی علامت ہے۔
روایات کے مطابق دیوالی اُس دن کی یاد میں منائی جاتی ہے جب رام چندر جی 14 سالہ جلاوطنی کے بعد اپنی اہلیہ سیتا اور بھائی لکشمن کے ہمراہ ایودھیا واپس لوٹے۔ عوام نے اُن کی واپسی پر خوشی کے اظہار میں پورا شہر چراغوں سے روشن کیا۔ یوں دیوالی روشنی کے غلبے اور اندھیرے کے خاتمے کی علامت بن گئی۔
ہر مذہب میں روشنی کو خیر، علم اور ایمان کی علامت مانا گیا ہے۔ دیوالی بھی اسی روحانی تصور کی نمائندگی کرتی ہے کہ انسان اپنے اندر کے اندھیروں کو مٹائے، نفرت، لالچ اور حسد کے بجائے محبت، عدل اور نیکی کے دیے جلائے۔
اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ “اللہ نور السماوات والارض” یعنی اصل روشنی وہی ہے جو انسان کے دل کو نیکی اور انصاف کی طرف لے جائے۔
پاکستان میں ہندو برادری صدیوں سے بسنے والی ایک محبِ وطن اور پُرامن اقلیت ہے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں وہ اپنے عقائد کے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ دیوالی کے موقع پر اُن کے مندروں اور گھروں کی روشنی یہ پیغام دیتی ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں تمام مذاہب کو جینے کا حق حاصل ہے۔
پاکستان کے پارلیمان میں ہندو برادری کے رہنما جیسے ڈاکٹر رمیش کمار، لال چند ملہی، درشن لال، او رمیش کمار وانکوانی مذہبی رواداری، انسانی حقوق اور قومی اتحاد کے حامی ہیں۔ ان کی آواز پاکستان کی جمہوریت اور انسانیت دونوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مختلف ہندو سماجی رہنما اپنے علاقوں میں امن، تعلیم اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔
افغانستان میں بھی ہندو اور سکھ برادری نے اپنی تاریخ میں امن، برداشت اور قربانی کی روشن مثالیں قائم کیں۔ کابل، جلال آباد، کندھار اور شبرغان میں اُن کے قدیم مندر آج بھی موجود ہیں جو ہزاروں سالہ تہذیب کی گواہی دیتے ہیں۔ افغانستان کے پارلیمان میں ہندو اور سکھ نمائندوں، ادیبوں اور سماجی کارکنوں جیسے آنند رام، اُومید سنگھ، لیکھ راج اور رام لال نے امن، ہم آہنگی اور وطن سے محبت کا پیغام دیا۔ اُن کے کئی ادبی اور فکری کام آج بھی انسانیت کی خدمت کے گواہ ہیں۔
پشتون ہندو اور سکھ دونوں، چاہے وہ افغانستان کے ننگرہار، لغمان، غزنی یا قندھار سے ہوں یاخیبرپختونخوا کے بونیر، پشاور، مردان اور کوہاٹ سے ایک ہی ثقافتی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ ان کی زبان، لباس، روایات اور موسیقی ایک مشترکہ تہذیبی ورثہ پیش کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیوالی جب بونیر میں منائی جاتی ہے تو اس کی گونج جلال آباد تک محسوس ہوتی ہے، اور جب جلال آباد میں چراغ جلتے ہیں تو اُن کی روشنی بونیر اور سوات کے دلوں کو بھی روشن کرتی ہے۔ یہ وہ پشتون ہندو اور سکھ برادری ہے جس نے ہمیشہ امن، ہم آہنگی اور انسان دوستی کی مثال قائم رکھی۔
ہندوستان کے راجستھان، پاکستان کے سندھ، اور دونوں طرف کے پنجاب یہ وہ خطے ہیں جنہیں ہندو برادری نے محبت، کاروبار اور ثقافت کے رشتوں سے جوڑا۔ راجستھان کے جودھپور، عمرکوٹ، تھرپارکر، میرپورخاص اور لاہور، امرتسر، فاضلکا کے ہندوؤں کے درمیان صدیوں پرانے رشتے آج بھی زندہ ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے، خوشی و غم بانٹتے اور محبت کی وہ روایت قائم رکھتے ہیں جو سرحدوں سے بالاتر ہے۔ دیوالی کے چراغ جب تھرپارکر اور جیسلمیر میں جلتے ہیں تو اُن کی روشنی پنجاب اور بلوچستان تک اُمید کا پیغام پہنچاتی ہے۔ دیوالی اُن کے لیے صرف عبادت نہیں بلکہ اُمید، بقا اور انسان دوستی کی ایک روشنی ہے۔
خیبرپختونخوا کے حسین ضلع بونیر میں دیوالی کے مناظر پختونخوا کے اصل چہرے کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں مسلمان، ہندو اور سکھ برادری صدیوں سے ایک دوسرے کے دکھ سُکھ میں شریک رہی ہے۔ پیر بابا کا علاقہ روحانیت، محبت اور انسانیت کی سرزمین ہے۔ یہاں کے بزرگ صوفیاء نے ہمیشہ امن، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بونیر کے ہندو، مقامی مسلمانوں کے ساتھ ایک برادرانہ ماحول میں اپنی دیوالی مناتے ہیں۔
بونیر کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت ڈاکٹر سمیرا پرکاش جو پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں رواداری، خواتین کے حقوق اور امن کی ایک روشن مثال ہیں۔ اُن کا کردار بونیر کے عوام کے دلوں میں روشنی کی مانند ہے۔ مقامی لوگوں نے ہمیشہ اُن کی ہمت، خدمت اور امن کے پیغام کی حمایت کی۔ اُن کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ مذہب نہیں بلکہ کردار انسان کی اصل پہچان ہے۔
خیبرپختونخوا ہمیشہ ثقافتی تنوع اور مذہبی ہم آہنگی کی مثال رہا ہے۔ چترال کے کیلاش، بونیر کے ہندو، خیبر ایجنسی کے سکھ، کوہاٹ، مردان اور پشاور کے مسلمان سب ایک ہی دھرتی کے بیٹے ہیں۔ یہ وہ خوبصورتی ہے جو دیوالی کے چراغوں کی مانند پورے صوبے میں روشنی پھیلاتی ہے۔ رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک بابا نے اپنے کلام میں دلوں کی صفائی، محبت اور انسانیت کا درس دیا یہی وہ فکری تسلسل ہے جو دیوالی کے پیغامِ روشنی سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔
پاکستان کے دیگر صوبوں سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں بھی ہندو برادری کے مذہبی اور ثقافتی تہوار مثلاً ہولی، رکشا بندھن، ناگ پنچمی، جنم اشٹمی اور دیوالی رنگ، روشنی اور اُمید کے استعارے ہیں۔ ان تہواروں میں نہ صرف عبادت بلکہ خوشی، سخاوت، برابری اور سماجی ہم آہنگی کا پیغام پوشیدہ ہے۔
دیوالی کے موقع پر جب مسلمان دوست اپنے ہندو ہمسایوں کو مٹھائی پیش کرتے ہیں، اور ہندو بچے مسلمان گھروں کے دروازے پر آتشبازی دیکھتے ہیں، تو یہی مناظر ہمارے معاشرے کے اصل چہرے کو نمایاں کرتے ہیں۔ دیوالی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ نفرت کبھی روشنی پیدا نہیں کرتی۔ اگر انسان اپنے اندر کے اندھیروں کو پہچان لے، تو معاشرہ خود بخود منور ہو جاتا ہے۔
پاکستان اُس وقت اور مضبوط ہوگا جب تمام شہری چاہے وہ مسلمان ہوں، ہندو، سکھ یا مسیحی ایک دوسرے کو احترام، محبت اور برابری کی نظر سے دیکھیں۔ دیوالی صرف ہندوؤں کا تہوار نہیں رہتا بلکہ پاکستان کے قومی رنگ میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد، کراچی، پشاور اور لاہور میں ہر سال دیوالی کی تقاریب اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان تنوع، محبت اور باہمی احترام کا ملک ہے۔
دنیا میں امن اُسی وقت ممکن ہے جب ہر مذہب، ہر زبان اور ہر نسل کے لوگ ایک دوسرے کی روشنی کا احترام کریں۔ دیوالی کا یہی بنیادی پیغام ہے خیر، اُمید اور انسانیت کی روشنی۔دیوالی بلاشبہ ہندو برادری کا مذہبی تہوار ہے، مگر اس کی روح پوری انسانیت کے لیے ہے۔ جب بونیر کا کوئی ہندو بچہ اپنے مسلمان ہمسائے کے ساتھ آتشبازی دیکھتا ہے، جب پیر بابا کے مزار کے قریب چراغ جلتا ہے، اور جب ڈاکٹر سمیرا پرکاش امن کا پیغام دیتی ہیں۔تو یہ ہر روشنی ایک مشترکہ انسانی اُمید کی علامت بن جاتی ہے۔
دنیا کو آج اسی روشنی، اسی اُمید اور اسی انسانیت کی ضرورت ہے۔دیوالی کے چراغ صرف مندروں میں نہیں جلتے، بلکہ اُن دلوں میں بھی جلتے ہیں جہاں انسانیت زندہ ہے۔پاکستان اور افغانستان میں ہندو برادری کی یہ روشنی، امن اور اُخوت کا وہ پیغام ہے جو اسلام، انسانیت اور محبت سے متصادم نہیں بلکہ اُسے مزید مضبوط کرتی ہے۔ یہ اسلام کے خلاف کوئی تہوار نہیں بلکہ اسلام کی طرح روشنی اور نیکی کا ایک ثقافتی پیغام ہے جو انسان کو ظلمت، نفرت اور تنگ نظری سے نکال کر امن، محبت اور بھائی چارے کی طرف بلاتا ہے۔ یہی وہ روشنی ہے جو ہر مذہب اور ہر انسان کے دل میں یکساں طور پر جل سکتی ہے اگر نیت خالص ہو اور مقصد انسانیت کی خدمت ہو۔