خواتین میں منشیات کا رجحان: بربادی کی طرف بڑھتا ہوا خاموش طوفان

زندگی، خالقِ کائنات کا وہ انمول تحفہ ہے جس میں رنگ، خوشبو، احساس، رشتے اور خواب شامل ہیں۔ یہ سانسوں کی مالا ہمیں بامقصد جینے کا پیغام دیتی ہے، اور ہر دن ہمیں نئے امکانات کے در وا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو شعور، ارادہ اور فہم عطا کیا تاکہ وہ خیر و شر میں فرق کر سکے۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا تاکہ وہ اپنی زندگی کو فلاح، اخلاق اور کردار کی بنیاد پر سنوارے۔ جب زندگی کی اصل قدر پہچانی جائے، تو وہ بوجھ بننے کے بجائے ایک نعمت بن جاتی ہے۔ ہر لمحہ جسے ہم خوشی یا غم میں گزارتے ہیں، ہماری شخصیت کو مکمل کرتا ہے۔ ایسی خوبصورت نعمت کو غفلت، لاپرواہی یا خود ساختہ اذیتوں کی نذر کرنا دانشمندی سے دور کی بات ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو انسان کے ہر پہلو کو سنوارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس دینِ فطرت نے منشیات جیسی مہلک اور عقل و شعور کو سلب کرنے والی اشیاء کو سختی سے ممنوع قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں شراب اور نشہ آور چیزوں کو شیطانی عمل کہا گیا ہے، جو نہ صرف انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہیں اس کے افعال، فیصلے اور اعمال کو بھی مسخ کر دیتی ہیں۔ احادیث میں واضح الفاظ میں نشہ آور اشیاء سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف جسمانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں یہ روحانی تباہی کا سبب بھی بنتی ہیں۔ عورت کو اسلامی معاشرے میں وقار، عزت اور تربیت کا مرکز تصور کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا نشے کی طرف مائل ہونا، پورے خاندانی اور سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔

جب عورت اپنی فطری خوبصورتی، ذہنی سکون اور روحانی توانائی کو زائل کرنے لگے، تو سمجھنا چاہیے کہ نہ یہ محض انفرادی بحران ہے یہ اجتماعی خرابی کی علامت بھی ہے۔ خواتین کی بگاڑتی ہوئی زندگیوں میں منشیات کی لعنت ایسی آفت ہے جو ان کی ذات، عزت، تعلقات اور مستقبل سب کچھ لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ شریعت نے عورت کو عزت، حیاء، اور کردار کی علامت قرار دیا ہے۔ جب وہ نشہ آور اشیاء کے ذریعے اپنی اصل شناخت کھو بیٹھتی ہے تو اس کا اثر صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا افسوس کہ یہ نسلوں کی بربادی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ ان وجوہات کی روشنی میں منشیات کا استعمال کسی بھی سطح پر قابلِ قبول نہیں ہو سکتا، خاص طور پر جب بات خواتین کی ہو، جن پر نسلوں کی تعمیر کی ذمہ داری ہے۔

خواتین میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان آج کے سماج کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ تعلیم یافتہ اور خوشحال طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں بظاہر ایک بہتر زندگی گزار رہی ہوتی ہیں، مگر ان کے اندر چلنے والی جنگ خاموش، گہری اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ یہ بظاہر کامیاب خواتین اکثر اندرونی طور پر دباؤ، بے سکونی اور تنہائی کا شکار ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ سہارا تلاش کرنے کی کوشش میں غلط راستہ چن لیتی ہیں۔ اس راستے کی پہلی منزل عام طور پر ذہنی تھکن، تناؤ یا خود اعتمادی میں کمی ہوتی ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ منشیات کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کئی مرتبہ یہ آغاز کسی دوست کے اصرار، فیشن کی دوڑ، یا جذباتی دباؤ کے تحت ہوتا ہے، مگر بعد میں یہی عادت زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہو جاتی ہے۔

بعض خواتین وزن کم کرنے، نیند لانے یا خود کو ریلیکس رکھنے کے لیے منشیات کا سہارا لیتی ہیں، جس کے پیچھے اکثر میڈیا، ماڈلنگ کلچر اور سوشل پریشر کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ایک مخصوص خوبصورتی کا معیار، باریکیوں میں چھپی خود تنقیدی سوچ اور معاشرے کی تنگ نظری، ان عورتوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ جب ان کے لیے جذبات کو سنبھالنا ممکن نہیں رہتا تو وہ وقتی سکون کے لیے ایسی چیزوں کی طرف مائل ہو جاتی ہیں، جو آگے جا کر ان کی شخصیت کو ہی نگل لیتی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اکثر ایسی خواتین معاشرتی مقام رکھتی ہیں اور باہر سے ان کے مسائل کا اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

شیشہ، جو کہ بظاہر فیشن یا تفریح کی علامت سمجھا جاتا ہے، حقیقت میں منشیات کی دنیا کا دروازہ بن چکا ہے۔ نوجوان لڑکیاں جب شیشے کو صرف ایک ٹرینڈ یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کا ذریعہ سمجھ کر اپناتی ہیں تو انہیں اس کے اثرات کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہ لطیف مگر طاقتور نشہ جسم کے ساتھ ساتھ دماغ پر بھی گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ ایک بار لت لگ جائے تو پھر اس سے چھٹکارا پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ شیشہ اس وقت بڑے شہروں میں خواتین کے درمیان ایک نارمل عمل بنتا جا رہا ہے، جس سے منشیات کا جال اور زیادہ مضبوط ہو رہا ہے۔

تعلیمی ادارے، دفاتر، اور یہاں تک کہ گھریلو خواتین بھی اس لعنت کی لپیٹ میں آ رہی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک طبقے یا عمر تک محدود نہیں رہا۔ جدید طرز زندگی، آزادی کے نام پر حد سے بڑھتی ہوئی بے پرواہی، اور روایتی خاندانی نظام کی کمزوری نے خواتین کو ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے، جہاں وہ اپنے جذبات کی سچائی کو سمجھنے کے بجائے اسے دبانے یا چھپانے لگتی ہیں۔ منشیات ایسے میں انہیں وقتی سہارا دیتی ہیں، لیکن اصل میں یہ سہارا اندرونی انتشار کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

ایسی خواتین جو منشیات کی طرف راغب ہوتی ہیں، اکثر جذباتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں۔ بدسلوکی، جنسی ہراسانی، گھریلو جھگڑے، یا بچپن کے تلخ تجربات ان کی نفسیات پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ جب ان کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو وہ احساس محرومی کا شکار ہو کر خود کو تنہا محسوس کرتی ہیں۔ یہی تنہائی منشیات کو ان کے لیے ایک پناہ گاہ بنا دیتی ہے۔ وہ اس زہر کو دوست سمجھ بیٹھتی ہیں، جو آہستہ آہستہ ان کی سوچ، شخصیت اور مستقبل کو نگلتا چلا جاتا ہے۔

جرائم کی دنیا میں خواتین کا داخلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جب نشے کی عادت مہنگی پڑنے لگتی ہے اور وسائل محدود ہو جاتے ہیں تو خواتین ان راہوں کا انتخاب کرنے لگتی ہیں جو اخلاقی، قانونی اور معاشرتی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہوتیں۔ وہ چوری، فراڈ یا دیگر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہو جاتی ہیں تاکہ نشے کی طلب کو پورا کر سکیں۔ اس طرح نشہ صرف ایک جسمانی یا ذہنی عادت رہتا ہے بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبے کو اپنے دائرے میں لے آتا ہے اور عزت دار خواتین کو ایسے کاموں میں دھکیل دیتا ہے جو ان کے لیے ناقابل تصور ہوتے ہیں۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال لاکھوں خواتین منشیات کے استعمال کی طرف مائل ہو رہی ہیں، جو سماج کے لیے ایک خطرناک اشارہ ہے۔ یہ رجحان اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے جب علاج اور بحالی کے عمل میں سنجیدگی کی کمی ہو۔ منشیات چھوڑنے کی کوشش اکثر ناکام اس وجہ سے ہوتی ہے کہ معاشرتی رویے ایسے افراد کو نفرت اور طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں، جس سے وہ دوبارہ اسی دلدل میں جا گرتے ہیں۔ جب تک بحالی کے مراکز، نفسیاتی معاونت اور سماجی قبولیت فراہم نہ کی جائے، خواتین کا نشے سے نجات حاصل کرنا ایک مشکل چیلنج بن کر رہ جائے گا۔

منشیات کی لت میں مبتلا خواتین اکثر اپنے مسئلے کو تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ معاشرہ عورت کے لیے ایسے مسائل کو بدنامی اور شرمندگی سے تعبیر کرتا ہے۔ نتیجتاً وہ خاموشی سے یہ عادت اپناتی اور چھپاتی رہتی ہیں۔ وہ اپنے اندر جنگ لڑتی ہیں مگر مدد مانگنے کی ہمت نہیں کر پاتیں۔ ان کے اندر ایک مسلسل کشمکش جاری رہتی ہے، جو انہیں ذہنی طور پر توڑ دیتی ہے۔ ایسے میں اگر گھر والے، دوست یا معالج ان کا ساتھ دیں تو وہ بہت جلد اس لت سے نکل سکتی ہیں، مگر اکثر ان کے قریب کے لوگ بھی ان کی حالت کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

بچاؤ کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ابتدا ہی سے ذہنی صحت پر توجہ دی جائے۔ لڑکیوں کو بچپن سے ہی جذباتی اظہار کا موقع، اعتماد اور کھلا ماحول دیا جائے تاکہ وہ اپنے اندر کے مسائل کو دبا کر نہ رکھیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ذہنی تربیت بھی ضروری ہے تاکہ وہ مشکل وقت میں سنجیدہ فیصلے لے سکیں، غلط سمت کی طرف نہ جائیں۔ ان کے لیے مشاورت، کونسلنگ اور سپورٹ سسٹمز کو عام اور قابل رسائی بنایا جائے تاکہ کسی بھی پریشانی کی صورت میں وہ کسی محفوظ جگہ کا سہارا لے سکیں، منشیات کا نہیں۔

نشے سے نجات پانے کا عمل وقت لیتا ہے، مگر ناممکن ہرگز نہیں ہوتا۔ اگر خاتون کو گھر والوں کا اعتماد، معالج کی رہنمائی اور معاشرتی تعاون حاصل ہو تو وہ دوبارہ ایک صحت مند زندگی کی طرف لوٹ سکتی ہے۔ ہر دن ایک نئی شروعات کا موقع ہوتا ہے اور یہی سوچ اسے ہار ماننے سے روکتی ہے۔ مشورہ، محبت، اور مثبت رہنمائی اس کا سہارا بن سکتے ہیں۔ اگر سماج اپنی سوچ کو وسعت دے اور ان خواتین کو قصوروار کے بجائے متاثرہ کے طور پر دیکھے تو بحالی کا عمل نہ صرف آسان بلکہ موثر بھی ہو سکتا ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ منشیات کوئی تفریح یا عادت نہیں ہے یہ ایک زہریلا جال ہے جو آہستہ آہستہ انسان کی شخصیت، رشتے، خواب اور زندگی سب کچھ نگل لیتا ہے۔ خواتین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے مسائل کا حل نہ ہی نشے میں چھپا ہے یہ تو شعور، اعتماد اور مدد مانگنے کی ہمت میں ہے۔ سماج، حکمران، قانون، علماء اور غرض یہ کہ بطور معاشرہ اس رجحان کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں اور ان خواتین کو سہارا دینا چاہیے تاکہ وہ دوبارہ خود کو سنوار سکیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے، اور شاید کل بہت دیر ہو جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے