جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کی زندگی میں بے شمار آسانیاں پیدا کی ہیں، لیکن جہاں سہولیات آئی ہیں، وہیں کچھ نقصانات بھی ساتھ لائی ہیں۔ موبائل فون، جو کبھی صرف بات چیت کا ذریعہ تھا، آج ہر عمر کے فرد کے لیے ایک مجازی دنیا بن چکا ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اب یہ آلہ بچوں کی معصومیت، تعلیم اور صحت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب بچوں کا بچپن کھیل کے میدانوں، کہانیوں کی کتابوں اور دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں گزرتا تھا، لیکن آج وہی بچے گھنٹوں موبائل کی اسکرین سے چپکے نظر آتے ہیں۔
آج کل کے بچے ہی نہیں، بڑے بھی اکثر موبائل فون میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنے اردگرد کے ماحول، گھر والوں، اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس کم ہو جاتا ہے۔
خاندانی تعلقات کمزور ہونے لگتے ہیں، کیونکہ بات چیت اور وقت گزارنے کا رجحان کم ہو جاتا ہے۔ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ جیسے آنکھوں کی کمزوری، نیند کی کمی، اور دماغی تناؤ۔
سماجی زندگی محدود ہو جاتی ہے، کیونکہ لوگ آمنے سامنے بات کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر مصروف رہتے ہیں۔
کتابوں سے دوری
ماضی میں بچے کہانیوں، سبق آموز کتابوں اور تعلیمی مواد سے شوق سے جُڑے رہتے تھے۔ ان کی ذہنی نشوونما میں کتابوں کا بڑا کردار ہوتا تھا۔ کتابوں کے ذریعے نہ صرف علم حاصل ہوتا بلکہ تخیل، اخلاقیات، اور زبان بھی بہتر ہوتی تھی۔ لیکن اب موبائل فون نے کتابوں کی جگہ لے لی ہے۔ یوٹیوب، گیمز، اور سوشل میڈیا ایپس نے بچوں کی توجہ کتابوں سے ہٹا دی ہے۔ وہ علم کے خزانے سے دور اور وقتی تفریح میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بچوں کی زبان مطالعے کی عادت اور لکھنے کا ہنر کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
کھیل کے میدان سنّاٹے کا شکار
بچپن کا ایک حسین پہلو کھیل کود ہوتا ہے۔جس سے نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے بلکہ ٹیم ورک، برداشت اور مقابلہ کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
لیکن آج کے بچے موبائل پر بیٹھے ویڈیو گیمز کھیلنے کو ہی "کھیل” سمجھتے ہیں۔ کرکٹ، فٹبال، چھپن چھپائی، اور دیگر روایتی کھیل جو کبھی گلی محلوں کی رونق ہوتے تھے اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ جسمانی سرگرمی کی کمی سے بچے موٹاپے، کمزوری اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
بچپن کی معصومیت ختم ہوتی جا رہی ہے
موبائل نے بچوں کے معصوم ذہنوں پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ انٹرنیٹ کی غیر محدود رسائی نے انہیں ایسی معلومات اور ویڈیوز تک پہنچا دیا ہے جو ان کی عمر اور سمجھ سے باہر ہیں۔ ان کے دل و دماغ وقت سے پہلے بالغ ہو رہے ہیں۔معصوم باتیں، کھیل، ہنسی مذاق اور بچپن کی سادگی اب نایاب ہو چکی ہے۔ بچوں کی گفتگو، دلچسپیاں اور رویے بڑے لوگوں جیسے ہو گئے ہیں، جو افسوسناک ہے۔
والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری
یہ صورتحال والدین اور اساتذہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل دے کر ان کا اصل بچپن، علم، صحت اور خوشیاں چھین لی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، انہیں کتابوں کی جانب راغب کریں۔ باہر کھیلنے کی ترغیب دیں اور موبائل کے استعمال کو محدود کریں۔
اسی طرح اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالیں اور کلاس میں دلچسپ سرگرمیوں کے ذریعے ان کی توجہ دوبارہ تعلیمی میدان کی طرف مبذول کرائیں۔
اگر چہ موبائل ایک سہولت ہے، لیکن اس کا غلط استعمال بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بچپن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔اگر ہم نے ابھی سے ہوش نہ سنبھالا تو ہماری آنے والی نسل کتابوں، کھیلوں اور معصوم بچپن سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے گی۔ ہمیں توازن قائم کرنا ہوگا تاکہ ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی ہم بچوں کو ان کا بچپن واپس دے سکیں۔