میں بغرض تعلیم پانچ سال پشاور میں مقیم رہا ہوں۔ یہ عرصہ 1999ء سے 2004ء تک پر محیط ہے۔ پہلے پہل جب پشاور پہنچا تو یہ دیکھ کر تڑپ اٹھا کہ نشئی لوگ بہت بڑی تعداد میں نہایت قابل رحم حالت کے اندر، زمین پہ جگہ جگہ تڑپتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں نشئی لوگ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ بڑی تعداد میں موجودگی اور نہایت ناگفتہ بہ حالت میں مبتلا ان لوگوں کو دیکھنا میرے لیے ایک آذیت ناک تجربہ تھا۔ اس وقت حاجی کیمپ اڈہ، مساجد کے آس پاس، مارکیٹس، بورڈ کا علاقہ اور یونیورسٹی روڈ نشئی لوگوں کے بڑے مستقر ہوتے تھے اور شائد اب بھی ہیں۔
زندگی، صحت، حواس، احساس، جذبات اور شخصیت کو تباہ کرنے میں کوئی چیز اگر سب سے موثر ہے تو وہ ہے نشہ۔ نشے کی لت میں مبتلا ہو کر بندہ ہر اعتبار سے برباد ہونا شروع ہو جاتا ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ محسوس تک نہیں ہو رہا۔ وہ اپنے کام، ذمہ داریوں، خاندان اور حال احوال سے مکمل طور پر لاتعلق ہو کر زندگی میں صرف صبح و شام کرتے رہتے ہیں لیکن ان میں کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ ایک تحقیقی اندازے کے مطابق ملک میں تقریباً دو کروڑ کے قریب نشئ موجود ہیں۔ ایک سابق وفاقی وزیر کے مطابق "اسلام آباد کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 65 فیصد لڑکیاں اور 55 فیصد لڑکے منشیات کی لت میں مبتلا ہیں”۔
پشاور شہر میں نشے کی لت میں مبتلا لوگوں میں اکثریت نوجوانوں کی تھی خاص کر جو لوگ مختلف اڈوں اور ان کے گرد و پیش میں پڑے نظر آتے تھے ان کی حالت تو دیکھی نہیں جا سکتی تھی۔ نشے کی لت میں مبتلا افراد کے حال احوال سے بنے مناظر دیکھنے سے بخدا میرے دل پر آرے چلتے، محسوس ہو رہے تھے۔ پچیس سے چالیس سال کی درمیانی عمر والے نوجوان دنیا و مافیہا سے بے خبر خزاں رسیدہ پتوں کے مانند، بدبو دار ڈھانچے بنے اور تڑپتے نظر آرہے تھے۔ میں شدت سے اس بات کو محسوس کرتا کہ یہ لوگ ایک طرف تو کسی کے بیٹے، بھائی، شوہر یا باپ ہوسکتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ ملک کے شہری بھی تو ہیں یوں ان کا تباہ ہونا نہ جانے ملک و قوم کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہوگا؟۔
آج اکیس برس کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن نشے کی لعنت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ چاہیے تو یہی تھا کہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ اس ذلالت سے گلو خلاصی پر توجہ دیتے۔ اصلاح احوال کیلیے ذہنی، سماجی، دینی اور حکومتی سطح پہ ٹھوس اقدامات اٹھائے جاتے۔ نوجوانوں کی صحتمندانہ، اخلاقی اور تعمیری تربیت کو یقینی بنانے کا اہتمام ہوتا، روزگار اور مثبت مصروفیات کے مواقع پیدا کئے جاتے۔ الٹا حالات میں بہتری کے بجائے مذید ابتری آرہی ہے۔ ہماری بے حسی کی انتہاء دیکھیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو منشیات کے جہنم میں روز گرتے دیکھ رہے ہیں لیکن اصلاح احوال کے سلسلے میں معاشرہ اور حکومت دونوں مجرمانہ غفلت سے کام لے رہے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں منشیات نے باقاعدہ ایک ناسور کی شکل اختیار کرلی ہے۔ منشیات مستقل طور طلبہ کے معمولات میں شامل ہوگئی ہیں۔ کبھی کبھی چند دن کے لیے میڈیا میں شور ضرور اٹھتا ہے تند و تیز بیانات آجاتے ہیں، اصلاح احوال کے عزائم ظاہر ہو جاتے ہیں لیکن کچھ دن بعد ہی، پھر سب کچھ معمول پر آجاتے ہیں ایسا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
آج سے دس برس پہلی کی بات ہے۔ ٹی وی پہ ایک پروگرام دیکھ رہا تھا۔ مہمانوں میں معروف کالم نگار جاوید چوہدری بھی موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ "تعلیم کے لیے مختص وفاقی بجٹ سے دس گنا ذیادہ، سیگرٹ ساز کمپنیاں حکومت کو ٹیکس دیتی ہیں”۔ ذرا سوچیں صرف ٹیکس اگر اس قدر ذیادہ ہے تو کمائی کیا ہوگی؟ اور پھر صحت، ماحول اور زندگی پر اس "سفید سانپ” کے آثرات کس قدر تباہ کن ہوں گے؟ کیا حکومت کی ذمہ داری صرف یہ بنتی ہے کہ وہ سیگرٹ کے ڈبوں پر "تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے” لکھوائیں اور بس؟
منشیات سے انسانی زندگی، صحت، اخلاق اور سماج نے خارج از خیال و بیان نقصان اٹھایا ہے اور مسلسل اٹھا رہے ہیں۔ وقت آیا ہے کہ اب اس مصیبت سے انسان اپنا دامن جھاڑ لیں۔ منشیات کے استعمال اور پھیلاؤ پر حکومت کو سزائے موت مقرر کرنی چاہیے اور سماجی سطح پہ اس لت میں مبتلا تمام لوگوں کا مکمل سماجی بائیکاٹ کرنا چاہیے تاکہ اس ناسور سے زندگی اور صحت کو، جو آللہ کی نعمت بھی ہیں اور آمانت بھی مذید بچایا جاسکیں۔
نشہ اور بربادی لازم و ملزوم ہیں، کوئی نشے کی لت میں پڑے اور برباد نہ ہو یہ نہیں ہو سکتا۔ یقین کریں نشے سے پھیلنے والی تباہی دہشت گردی، کرپشن اور بغاوت سے کسی طرح بھی، کم تباہ کن نہیں۔ یہ وہ روگ ہے جس سے معاشرے اجڑ جاتے ہیں لیکن بے تحاشہ نقصانات سہنے اور دیکھنے کے باوجود ہماری اجتماعی توجہ میں اس اہم ترین مسئلے نے کوئی خاطر خواہ جگہ نہیں پکڑی۔ معاشرے میں کوئی ایسی جگہ نہیں بچی ( مساجد و مدارس کے علاوہ) جہاں منشیات کی غلاظت نہ پہنچی ہو۔ کیا سکول، کیا کالج، کیا یونیورسٹی، کیا ہسپتال، کیا سرکاری دفاتر، کیا پبلک ٹراسپورٹ، کیا بازار، کیا کھیل کے میدان، کیا افواج، کیا پولیس، کیا ڈاکٹرز، کیا مرد، کیا عورت، کیا بزرگ، کیا جوان اور یہاں تک کہ اب تو بچے بھی اس زہر کو، چوری چھپے خوشی خوشی لینے لگے ہیں۔
منشیات کا عفریت ہمارے معاشرے کے سب سے زیادہ اہم طبقے، یعنی نوجوان نسل، کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ یہ المیہ محض چند گنے چنے لوگوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے ہمارے تعلیمی اداروں، دفتروں اور حتیٰ کہ گھروں کی چار دیواری تک میں گھس کر اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ایک ایسی نسل کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں جو ملک و قوم کا مستقبل ہیں، مگر ہماری اجتماعی بے حسی نے اس قومی المیے کو معمول کا واقعہ بنا دیا ہے۔ جس رفتار سے یہ زہر پھیل رہا ہے، وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے بیشتر انسانی وسائل سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
منشیات کے خلاف جنگ محض قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے ہمہ جہت حکمت عملی کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ حکومتی سطح پر ناکام ادارے، غیر موثر قوانین اور وقتی شور شرابے نے اس آگ کو بجھانے کے بجائے ہوا دی ہے۔ سماجی سطح پر ہماری خاموشی اور لاپرواہی نے بھی اس لعنت کو فروغ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں، ان کی نفسیاتی رہنمائی کی جائے اور انہیں اس برائی بلکہ تباہی سے بچانے کے لیے مضبوط سماجی حصار قائم کیا جائے۔
صرف منشیات کی تجارت روکنا ہی کافی نہیں، بلکہ اس سے زیادہ اہم اس لت میں گرفتار افراد کی بحالی اور انہیں دوبارہ معاشرے کا کارآمد فرد بنانا ہے۔ اس کے لیے جدید سہولیات سے لیس بحالی مراکز قائم کرنے ہوں گے، جہاں نفسیاتی علاج اور پیشہ ورانہ تربیت کا انتظام ہو۔ علاوہ ازیں، منشیات سے بچاؤ کی مہم کو تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ بنانا ہوگا تاکہ نئی نسل اس زہر کی طرف مائل ہی نہ ہو۔ یہ وقت عمل کا ہے، ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اس تباہی سے بچانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا ہوگا، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
نشے کی غلیظ اور منحوس لکیر نے ہر مقام اور طبقے کا بری طرح احاطہ کیا ہوا ہے یہ جس قدر مہلک لعنت ہے اس سے کہیں ذیادہ ہماری اجتماعی غفلت تکلیف دہ ہے۔ کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہم نے صرف منشیات کی وجہ سے اپنے کتنے نوجوانوں، ہنرمندوں اور صحتمند شہریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہنستے بستے گھرانوں میں نشئی پیدا ہو کر مختصر عرصے میں اجڑنا شروع ہو جاتے ہیں، پورا پورا خاندان اور عزیز و اقارب سخت اذیت میں مبتلا ہوکر خطرناک حالات سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ خود نشئی بھی کچھ کم تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتے وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر زندہ نہ مردہ پڑے رہتے ہیں ان کو اپنی خبر ہوتی ہے نہ کسی اور کی، اس کے لیے زندگی نعمت نہیں بلکہ ایک اذیت بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہ پاتا صحت، دولت، عزت، کام، اطمینان اور نہ ہی احساس۔ نشے کی لت میں مبتلا انسان سماج کا ایک ناقابل برداشت بوجھ بن جاتا ہے۔ اس کے وجود سے خاندان میں کوئی خوشحالی آتی ہے نہ معاشرے میں کوئی بہتری۔
نشئی اپنے آپ، اپنی ساکھ، اپنے خاندان، اپنے معاشرے، بلکہ پوری انسانیت، ماحول اور وسائل کا دشمن نمبر ایک ہوتا ہے۔
غرض وہ نقصان لامحدود دیتا ہے اور فائدہ کچھ بھی نہیں۔ انسان دشمن اور سماج دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مظلوم بھی ہوتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی، صحت، دولت، عزت، شخصیت، اطمینان اور خاندان ہر چیز کو تباہ کرنے پر تلا ہوتا ہے اور اس کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
حکومت کو چاہیے کہ ایک ادارہ ایسا قائم کریں جو کہ نہ صرف منشیات کا تدارک کرے، ایک بڑے اور ہر طرف پھیلے کاروبار کو روکے (مجھے ایک باوثوق ذریعے نے کہا کہ منشیات کے کاروبار اور فروغ میں دنیا کی نامی گرامی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں) بلکہ نشے کی لت میں مبتلا لوگوں کی بحالی کا کام بھی کرے (انٹی نارکوٹیکس ایک مکمل ناکام ادارہ ہے) ورنہ منشیات آژدھاء بن کر پوری نوجوان نسل سے ہم کو فارغ کر دے گا اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ حکومت جتنی جلدی ممکن ہو اس بات کا اہتمام کرے بصورت دیگر ہم اپنے انسانی وسائل سے مکمل طور پر ہاتھ دھو دیں گے۔