فولادی حوصلے کی وارث: جاپان میں پہلی بار منتخب خاتون وزیراعظم سانائے تاکائچی

سانائے تاکائچی کا نام آج جاپان کی تاریخ میں اس مقام پر رقم ہو چکا ہے جہاں اب تک کسی عورت کا گزر نہیں ہوا تھا۔ وہ ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہو چکی ہیں ایک ایسا سنگ میل جو نہ صرف صنفی سیاست کا ہے یہ ایک بھرپور، متنوع اور پرعزم زندگی کا نچوڑ ہے۔ ان کی شخصیت میں میڈیا کی چمک بھی ہے، میوزک کی گونج بھی، قدامت پسندی کی گہرائی بھی اور اصلاح پسندی کا عکس بھی۔ ان کے سیاسی سفر کی پیچیدگیاں، ذاتی دلچسپیاں اور معاشرتی نظریات مل کر ایک ایسی کہانی بناتے ہیں جو نہ جاپان ہی میں بلکہ پوری دنیا کے لیے حیرت، تجسس اور فہم کا ایک نیا زاویہ پیش کرتی ہے۔

یہ لمحہ جاپانی سیاسی تاریخ میں نہ صرف اس لیے اہم ہے کہ ایک خاتون وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئی ہیں، اس لیے بھی کہ یہ مردوں کے غلبے والے سیاسی ایوان میں عورت کی دانش، قیادت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت پر اعتماد کا عملی اعلان ہے۔ برسوں سے جاپانی سیاست جس صنفی تفاوت کا شکار رہی ہے، اس میں یہ انتخاب ایک جرات مندانہ پیش رفت کی حیثیت رکھتا ہے۔ سانائے تاکائچی کی کامیابی ان رکاوٹوں کے خلاف ایک خاموش مگر طاقتور احتجاج ہے جو خواتین کو اعلیٰ سیاسی مناصب تک پہنچنے سے روکتی آئی ہیں۔ یہ انتخاب نہ صرف روایتی سوچ میں دراڑیں ڈالتا ہے، بخدا حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی خودمختاری، اختیار اور معاشرتی کردار کے نئے تصور کو بھی جنم دیتا ہے۔

یہ بات کسی خوشگوار انقلاب سے کم نہیں کہ آج جاپان کی قیادت ایک ایسی عورت کے ہاتھ میں ہے جس نے نہ صرف مردوں کے قائم کردہ معیارات پر پورا اترنے کا حوصلہ دکھایا، انہوں نے اپنی خودی، مزاج اور فکر کو برقرار رکھتے ہوئے ان معیارات کو ازسرِ نو متعین کیا۔ اس تبدیلی میں محض ایک فرد کی کامیابی چھپی ہوئی ہے بلکہ ایک پورے نظام کے اندر صنفی توازن کی جانب پیش قدمی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ سانائے تاکائچی کے انتخاب نے ان گنت نوجوان لڑکیوں کو خواب دیکھنے، آگے بڑھنے اور اپنی آواز بلند کرنے کا حوصلہ عطا کیا ہے۔ اب وہ خود کو سیاست کے ایوانوں میں محض تماشائی بنے گی وہ ممکنہ رہنما تصور کرنے لگی ہیں۔

یہ انتخاب ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب جاپانی سماج میں عورتوں کی نمائندگی، خاص طور پر اعلیٰ سطحوں پر، اب بھی محدود ہے۔ ایسے ماحول میں ایک خاتون کا وزیراعظم بن جانا اس بات کی علامت ہے کہ روایتوں میں تبدیلی کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے بس شرط یہ ہے کہ کوئی اس میں پہلا قدم اٹھائے۔ سانائے تاکائچی نے یہ پہلا قدم نہایت وقار، پختہ ارادے اور سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ اٹھایا ہے۔ یہ نہ انتخابی جیت ہے یہ تو صنفی امتیاز سے آگے بڑھنے کی قومی خواہش کا اظہار ہے، جو جاپان جیسے ثقافتی طور پر محتاط معاشرے کے لیے بھی کسی انقلاب سے کم نہیں۔

ان کی حکومت کا آغاز اس اجتماعی امید کی تجدید ہے کہ خواتین نہ صرف سماجی اور گھریلو سطح پر ہی مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتیں، خواتین قومی پالیسیاں مرتب کرنے، خارجہ تعلقات سنبھالنے اور بحرانوں سے نمٹنے کے میدان میں بھی مکمل اعتماد کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہیں۔ ان کے منصب پر فائز ہونے سے نہ صرف جاپان کی سیاسی سمت میں ایک علامتی تبدیلی آئی ہے، یہ عالمی سطح پر بھی ایک اہم پیغام ہے کہ صنفی مساوات محض نعروں سے نہیں، عمل سے جنم لیتی ہے۔

یہ قیادت اب اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ عورت کا اختیار، اس کی خود اعتمادی اور اس کی فکری گہرائی کسی بھی ریاستی نظام کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔ سانائے تاکائچی کا اقتدار سنبھالنا محض ایک سیاسی تقرری ہے یہ تو معاشرتی ارتقا کی نشانی بھی ہے، جو آنے والے برسوں میں جاپانی خواتین کے لیے راہیں ہموار کرے گا اور ایک نئے سماجی معاہدے کی بنیاد رکھے گا، جہاں طاقت کا مطلب نہ صرف اختیار ہوگا احساسِ ذمے داری بھی ہو گا، اور قیادت ہدایت کا ہی نہیں، ہم آہنگی اور شمولیت کا استعارہ ہو گی۔

مزید برآں، سانائے تاکائچی 1961 میں نارا پریفیکچر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ایک عام آفس ورکر جبکہ والدہ پولیس افسر تھیں۔ ایک سادہ، غیر سیاسی ماحول میں پرورش پانے والی سانائے کا بچپن ایسے کسی اشارے سے خالی تھا کہ وہ ایک دن ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی ذمہ داری سنبھالیں گی۔ نوجوانی میں وہ ٹی وی اینکر کے طور پر جلوہ گر ہوئیں بلکہ ایک ہیوی میٹل میوزک بینڈ کی ڈرمر بھی رہیں، جہاں ان کی طاقتور ڈرمنگ کی شدت سے اکثر ان کی ڈرم اسٹکس ٹوٹ جاتی تھیں۔ اس زمانے میں وہ سکوبا ڈائیونگ کی شوقین تھیں اور کاروں کی دنیا سے خاص لگاؤ رکھتی تھیں۔ ان کی پسندیدہ کار ‘ٹویوٹا سپرا’ آج نارا کے میوزیم میں نمائش کا حصہ ہے، جو ان کے ماضی کا دلکش عکس ہے۔

ان کا سیاست میں باقاعدہ داخلہ 1993 میں ہوا جب وہ آزاد حیثیت سے ایوانِ زیریں کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔ اس سے قبل، 1992 میں بھی انہوں نے انتخاب لڑا مگر کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ اس ایک ناکامی کے باوجود وہ ڈٹی رہیں، اور اگلے ہی سال کامیاب ہو کر سیاسی منظرنامے میں داخل ہوئیں۔ 1996 میں وہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) میں شامل ہوئیں اور تب سے اب تک دس مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہو چکی ہیں۔ انتخابی سیاست میں انہیں صرف ایک بار شکست کا سامنا کرنا پڑا، جو ان کی عوامی مقبولیت اور مستقل مزاجی کا ثبوت ہے۔

سانائے تاکائچی کا نظریاتی جھکاؤ قدامت پسند حلقوں کی جانب رہا ہے۔ وہ سابق وزیراعظم شینزو آبے کی قریبی ساتھی رہی ہیں اور ان کے مالیاتی وژن سے متاثر نظر آتی ہیں۔ وہ اکثر متنازع یاسوکونی شرائن کی زیارت کرتی ہیں، جو جاپان کی جنگی تاریخ سے جڑا ہوا ایک حساس مقام ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جاپان کو اپنی دفاعی خودمختاری کے لیے آئینی پابندیوں سے نجات حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ عالمی سطح پر زیادہ خودمختار کردار ادا کر سکے۔

ان کے سیاسی سفر میں کئی نشیب و فراز آئے۔ 2021 میں وہ ایل ڈی پی کی قیادت کے لیے میدان میں اتریں مگر کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی۔ 2024 میں دوبارہ قسمت آزمائی کی، اور پہلے مرحلے میں سب سے آگے رہنے کے باوجود وزیراعظم کے عہدے تک نہ پہنچ سکیں۔ تاہم، ان کی مستقل مزاجی رنگ لائی، اور بالآخر پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے انہیں وزیراعظم کے طور پر منتخب کر لیا۔ یہ ایک غیر متوقع سیاسی اتحاد کے ذریعے ممکن ہوا، جس میں انہوں نے جاپان انوویشن پارٹی کے ساتھ الحاق کیا اور کومیٹو پارٹی سے علیحدگی کے بعد اپنی سیاسی پوزیشن کو بحال رکھا۔

ان کی کامیابی بظاہر صنفی مساوات کی جانب ایک قدم لگتی ہے، مگر ان کے نظریات ہمیشہ اس کے ہم آہنگ نہیں رہے۔ وہ ان چند رہنماؤں میں شامل ہیں جو شادی کے بعد خواتین کو اپنا خاندانی نام برقرار رکھنے کے حق کی مخالفت کرتی رہی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس روایت میں تبدیلی معاشرتی اقدار کے توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔ اسی طرح وہ ہم جنس شادی کی مخالف ہیں اور شاہی خاندان میں صرف مردانہ جانشینی کے حق میں ہیں۔ ان خیالات نے انہیں ایک سخت گیر قدامت پسند کے طور پر پہچان دی، اور ان کے وزارتی عہدوں کے دوران یہ سوچ ان کی پالیسیوں میں بھی جھلکتی رہی۔

تاہم، حالیہ انتخابی مہم کے دوران وہ نرم لہجے اور ہمدردانہ اصلاحات کے ساتھ سامنے آئیں۔ بچوں کی نگہداشت کے اداروں پر ٹیکس چھوٹ، خواتین کی صحت کے لیے خصوصی ہسپتالوں کی فراہمی، اور معمر افراد کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے جیسے نکات ان کی مہم کا حصہ تھے۔ ان کے مطابق، انہوں نے ذاتی طور پر تین بار نرسنگ اور کیئر گیونگ کے عمل کو قریب سے دیکھا ہے، جس نے انہیں اس شعبے میں بہتری لانے کا عزم دیا۔

سانائے تاکائچی نے اپنے آپ کو مارگریٹ تھیچر سے متاثر قرار دیا ہے، اور جاپانی میڈیا نے انہیں ’آئرن لیڈی‘ کا لقب دیا ہے۔ تاہم، تھیچر کے مقابلے میں ان کا معاشی رویہ زیادہ نرم اور داخلی معیشت کے استحکام پر مرکوز ہے۔ وہ مالیاتی وسعت اور کم سودی قرضوں کی حامی ہیں، اور جاپان کو ایک ایسا ملک بنانے کی خواہش رکھتی ہیں جو آئندہ نسلوں کے لیے پائیدار اور قابل فخر ہو۔

ان کی حکومت کا قیام اس وقت عمل میں آیا ہے جب ایل ڈی پی دونوں ایوانوں میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے۔ قانون سازی کے لیے دیگر جماعتوں کی حمایت درکار ہو گی، اور یہی سیاسی حقیقت ان کی قیادت کے لیے ایک بڑا امتحان ہو گی۔ ورلڈ اکنامک فورم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جاپان صنفی مساوات میں بہت پیچھے ہے، اور ایوانِ زیریں میں خواتین کی نمائندگی محض 15 فیصد ہے۔ اس پس منظر میں ان کی وزارت ایک امید کی کرن بھی ہے کہ شاید جاپان میں خواتین کو عملی سیاست میں مزید مواقع میسر آئیں گے۔

نوجوان لڑکیاں، کام کرنے والی خواتین، اور معاشرتی حقوق کے لیے سرگرم حلقے سانائے تاکائچی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ جاپان کو خواتین کے لیے زیادہ محفوظ، معاون اور بااختیار مقام بنائیں گی۔ اگرچہ ان کی سیاسی سمت روایتی نظریات پر مبنی ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے بیانیے میں وسعت اور زمینی حقائق سے ہم آہنگی کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔

سانائے تاکائچی کا سفر ایک غیر معمولی زندگی کا عکس ہے ایسی شخصیت جو ٹی وی اینکر سے لے کر پارلیمان کی سربراہی تک پہنچی۔ انہوں نے روایات، سیاست، ذاتی تجربات اور عوامی خدمت کو یکجا کرتے ہوئے ایک ایسا باب رقم کیا ہے جو جاپان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ فولاد جیسے عزم، واضح وژن اور جذباتی گہرائی کی حامل یہ رہنما اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکی ہیں جہاں جاپان کی نئی سمت متعین ہونے جا رہی ہے ایک ایسی سمت جو شاید روایت اور اصلاح، دونوں کا امتزاج ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے