کیا علاقے یا اقوام اصل ہیں اور پاکستان ثانوی ؟؟؟

بظاہر یہ سوال بڑا تعجب انگیز ہے کہ کم و بیش 70 برس گزرنے کے بعد بھی قومی و ملی وحدت کی تشریح کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، حالانکہ پاکستان کی قومی وحدت کا سب سے بڑا ثبوت خود پاکستانی ہے، مسلمان ایک الگ قوم تھے اس لیے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اس قوم کے لیے ایک الگ ملک تجویز ہوا، جس کا نام پاکستان ہے۔ اگر یہ ایک مربوط قوم نا ہوتے تو یہ مطالبہ تسلیم ہی نا ہوتا۔

پھر یہ بات کہ اس قسم کی گفتگو جارہی ہے کہ پاکستانی قوم کو ایک بناؤ، اس میں وحدت پیدا کرنے کے وسائل پر غور کرو، اس کے اختلافات کو مٹاؤ تاکہ یہ ایک قوم ہو جائے، ان باتوں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو ملی وحدت کے بارے میں شک پیدا کر رہی ہیں یا اس کو کمزور کر رہی ہیں۔

یہ چیزیں کیا ہیں؟؟؟ غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اس ملی وحدت کے بارے میں شک پیدا کرنے والی کئی چیزیں ہیں جن میں سے دو نمایاں ہیں:-
(1) علاقائیت کا نظریہ
(۲) قومیت کا نظریہ

علاقائیت کا نظریہ:- ” یہاں علاقائیت کے نظریے سے مراد کسی علاقے یا خطے کے بارے میں تعصب کی ایسی شدید صورت جس کے باعث ملت یا قوم کی کلی اور مرکزی حیثیت کو ثانوی حیثیت حاصل ہو جائے”۔

اپنے علاقے سے محبت کوئی بری چیز نہیں بلکہ فطری امر ہے، لیکن علاقے کی محبت اور ملت کی محبت کو باہم اس طرح شیر و شکر ہونا چاہیے کہ علاقے کی محبت کے اظہار کے وقت یوں محسوس ہو کہ یہ ملت سے جدا کوئی شئے سے نہیں، جیسے کہ کسی کے چہرے کی تعریف کرتے ہوئے اس کو بدن سے الگ تصور نہیں کیا جاتا۔

تحریک پاکستان برصغیر میں بننے والے مسلم قوم کی جدو جہد تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد علاقے کی محبت کا اظہار کچھ اس طرح ہوا اور ہو رہا ہے گویا پاکستان کی جدوجہد اولاً علاقوں کے لیے تھی بعد میں ملک کے لیے، علاقے مقدم اور ملت یا تو موجود ہی نا تھی ثانوی درجے کی چیز تھی، بس یہ ہی علاقہ پرستی ہے۔

قومیت کا نظریہ:- دوسری نمایاں چیز قومیت کا نظریہ ہے، جو آج کل ہمارے معاشرے میں خوب پھل پھول رہا ہے، اس مسئلہ پر بحث کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے "قومیت” کی تعریف کی جائے، "قومیت سے مراد وہ ذیلی گروہ ہوتے ہیں جو کسی وسیع تر قوم کے اندر اپنی بعض جذباتی بنیادوں کی بنا پر قوم کا جزو ہونے کے باوجود اپنے الگ وجود کا شعور بھی رکھتے ہوں، یہ بنیادیں نسل، رنگ، زبان اور مذہب سے متعلق ہو سکتی ہیں”۔

قومیت کا مسئلہ دنیا کے مختلف خطوں میں اکثر مفاداتی اور سیاسی اغراض سے ابھرتا رہا ہے اور اور انیسویں و بیسویں صدی کے یورپ میں بڑی طاقتیں اپنے استعماری مقاصد کے لیے اس جذباتی مسئلے سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں، یورپ میں جب مادہ پرستی کو ترقی حاصل ہوئی، استعماری اور استحصالی قوتوں نے فروغ پایا تو بڑی طاقتوں نے اپنی افراض کے لیے اقوام کے اندر کی قومیتوں میں جدائی کا احساس ابھارنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹی قوتیں ابھر آئیں اور آگے چل کر ہر قوم نے الگ ریاست بنا لی، قومیت کا یہ جذبہ ابتداء میں مظلومی کے احساس سے پیدا کیا گیا، اس کے بعد لسانی و نسلی تفاخر و غرور اور محرومی کے مصنوعی مگر منظم پروپیگینڈے سے ترقی پذیر ہوا، اور آخر میں دشمنی و منافرت کی صورت میں ظاہر ہوتا رہا.اسی کا دوسرا نام نام نیشنلزم ہمیشہ ہے۔

اس نیشنلزم کا سب سے بڑا حملہ اسلامی ملکوں پر ہوا اور نتیجہ جدا جدا اسلامی ریاستوں اور طاقتوں کے بکھرنے کی صورت میں برآمد ہوا اور اب یہ ہی ہتھیار پاکستان پر بھی کافی عرصے سے آزمایا جا رہا ہے، قومیتوں کے بعض مدعی اپنی فرقہ پسندی پر قرآن سے بھی سند لاتے ہیں اور "و جعلنکم شعوباً شعوباً و قبائل” سے استدلال کرتے ہیں، حالانکہ اسلام نے "شعوب اور قبائل” کی حقیقت کو تسلیم کر کے اس کا مقصد ذکر کیا اور ان تعصبات کی مذمت کی جو قبیلہ پرستی کے ساتھ وجود میں آتے ہیں اور ارشاد فرمایا :- "لتعارفوا، إن اکرمکم عند الله اتقٰکم”.

اسلام ایک معاشرہ کے لیے قوم یا قبیلہ پرستی نہیں بلکہ مکمل انسانیت اور اخوت و تقوی کو معیارِ خیر تصور کرتا ہے اور شعوب و قبائل کا جواز صرف تعارف کی حد تک ہے۔

تحریکِ پاکستان کی اساس صرف اسلام ہے، اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے مسلمانوں نے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کیں اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا، مگر بد قسمتی سے اب اس وطنِ عزیز میں دیگر فتنوں کی بھرمار کے ساتھ ساتھ قومیت کا عفریت بھی منہ کھولے کھڑا ہے، اس فتنہ نے اچانک سر نہیں اٹھایا بلکہ ان خیالات کو پہلے علاقائی نسبت سے پیش کیا جاتا رہا، اب اسی علاقائیت کو زیادہ شدید اور منظم طور سے پیش کرنے کے لیے اسکو "قومیتوں” کا نام دے دیا گیا ہے، اور مقصد اس نئی اصطلاح کا یہ ہے کہ علاقائیت میں ایک قدم آگے بڑھا کر تعصب اور تشدد والی کیفیت پیدا کی جائے اور وطن عزیز پاکستان میں ایک دفعہ پھر 1971 کا سانحہ دہرا کر پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔

قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے 28 مارچ 1980ء میں ڈھا کر میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ
"اگر ہم سمجھنے لگیں کہ ہم پہلے بنگالی، پنجابی اور سندھی وغیرہ ہیں اور مسلمان و پاکستانی محض اتفاقیہ تو جان لیجئے کہ پاکستان کا شیرازہ بکھر جائے گا”۔

ان مسائل کو حل کرنے میں دو باتیں ایسی ہیں جنگی اہمیت مسلّم ہے ایک مفاداتی مفاہمت کی اہمیت و ضرورت اور دوسرا زبانوں کے مقام کا تعین ، اگر ہم پاکستان میں سنے والی اقوام کی عمارت کو ایک ہی اساسی پر استوار کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس میں بسنے والے شہریوں کے لیے اجتماعی مفاد پر مبنی اور انصاف کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک منشور مرتب کیا جائے جس میں ایک خوشحال زندگی اور تکمیلِ شخصیت کے اصول ترتیب دئیے جائیں اور اس منشور پر عمل درآمد کروایا جائے، جہاں تک زبانوں کے مقام کے تعین کا مسئلہ ہے تو اس کا حل بھی نہایت آسان ہے کہ پاکستان میں رائج زبانوں کی درجہ بندی کی جائے اور اس میں حفظ مراتب کے اصولوں کو اپنایا جائے، لہذا اردو ملک کی مسلّم قومی زبان ہے لہذا سرکاری زبان کا درجہ صرف اسی زبان کو دینا چاہیے اور یہ ملکی مصلحت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور علاقائی زبانوں کی درجہ بندی کا فیصلہ عقلی معیاروں کے مطابق کیا جائے اور عقلی معیاروں کا تعین ہماری قومی ضرورتوں سے ہو سکتا ہے جن ضرورتوں میں ملکی وحدت کا انتظام و انصرام اور فکر بھی شامل ہے اور ہماری کاروباری ضرورتیں بھی شامل ہیں، اور کچھ زبانیں ایسی ہیں جن کی طرف توجہ لازمی ہے جیسے کہ عربی و فارسی، یہ ہماری دینی اور تہذیبی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اور آخر میں انگریزی زبان بھی جو ہماری تعلیمی زبان کا حصہ ہے اور اسکی حیثیت و اہمیت سے بھی فرار ممکن نہیں۔

تو ان زبانوں کی درجہ بندی کا فیصلہ عقل و فکر اور ان کے استعمال کا فیصلہ تدبر اور روادری سے کیا جا سکتا ہے۔

میں سفارش کرتا ہوں حکام سے کہ ضرورتوں کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مقام کو متعین کیا جائے اور ایسا فیصلہ کیا جائے جو قومیتوں کے تعصب کو نا اُبھارے، اور میں بڑے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ تمام زبانوں کو باعزت مقام دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کا حل مطلوب ہو ۔

کاش !!!! کہ یہ مسائل حل ہو جائیں تا کہ صحیح افکار کی اشاعت کا کام ہو سکے وگرنہ ظاہری وحدت کے باوجود ذہنی و روحانی وحدت کا معاملہ ہمیشہ کی طرح مشکوک ہی رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے