ناجانے کیوں

اپنی رائے دوسروں پر تھوپنے کا جنون ایک نفسیاتی مسئلہ
دنیا میں ہر انسان کے خیالات، تجربات، اور احساسات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ فرق ہی انسانیت کے حسن کو جنم دیتا ہے، مگر بعض اوقات یہی فرق کشمکش اور تنازعات کی جڑ بن جاتا ہے۔خاص طور پر جب کوئی شخص اپنی رائے کو سب سے برتر سمجھ کر دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی رائے دوسروں پر تھوپنے کا یہ جنون محض ایک رویہ نہیں بلکہ اکثر اوقات ایک نفسیاتی مسئلہ بن جاتا ہے جس کے اثرات فرد، خاندان اور معاشرے تینوں پر پڑتے ہیں

نفسیاتی مسله
ایسا رویہ عام طور پر ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جنہیں اپنی ذات پر غیر معمولی یقین یا برتری کا احساس ہوتا ہے۔ یہ احساسِ برتری دراصل اندرونی عدمِ تحفظ یا احساسِ کمتری کا ردعمل ہوتا ہے۔انسان جب اپنی سوچ کو ہی واحد سچ سمجھنے لگتا ہے تو اس کے پیچھے یہ خوف کارفرما ہوتا ہے کہ اگر اس کی رائے غلط ثابت ہوئی تو اس کی شخصیت یا وقار کو نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا وہ دوسروں کی آراء سننے یا قبول کرنے کے بجائے۔ اپنی بات کو منوانے کی کوشش میں حد سے گزر جاتا ہے۔

نفسیات میں ایسے رویے کو "Ego Defense Mechanism” یا انا کے دفاعی طریقہ کار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی جب کوئی فرد اندر سے کمزور ہو لیکن اس کمزوری کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تو وہ اپنی انا کے تحفظ کے لیے دوسروں پر اپنی سوچ مسلط کرتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ Narcissistic Personality Disorder یعنی خودپسندانہ شخصیت کے شکار ہوتے ہیں، جنہیں اپنی ذات کے علاوہ کوئی اور سچائی نظر نہیں آتی۔

سماجی و خاندانی اثرات۔
اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے والے افراد کے ساتھ رہنا اکثر لوگوں کے لیے اذیت ناک ہوتا ہے۔ خاندان میں ایسے افراد اکثر اختلافات اور جھگڑوں کا باعث بنتے ہیں۔وہ دوسروں کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے، اپنی غلطی تسلیم کرنا ان کے لیے ناممکن ہوتا ہے، اور نتیجتاً خاندانی رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں۔

معاشرتی سطح پر بھی یہ رویہ عدم برداشت کو فروغ دیتا ہے۔اگر ہر شخص اپنی بات کو ہی حرفِ آخر سمجھنے لگے تو مکالمہ ختم ہو جاتا ہے اور معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہو جاتا ہے۔آج کے دور میں سوشل میڈیا اس رجحان کو مزید بڑھا رہا ہے۔ لوگ بحث و مباحثے کے بجائے اپنی رائے کے مخالف ہر شخص کو "غلط”، "جاہل” یا "بد نیت” قرار دے دیتے ہیں۔اس طرح مکالمے کی جگہ الزام تراشی لے لیتی ہے، اور معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔

تعلیم و شعور کی کمی۔
کئی نفسیاتی ماہرین کے مطابق اس مسئلے کی جڑ تعلیم و شعور کی کمی بھی ہے۔جب انسان تنقیدی سوچ سے محروم ہو، مطالعہ نہ کرے، یا مختلف زاویۂ نظر کو برداشت نہ کرے، تو وہ اپنی محدود فہم کو ہی سچائی سمجھ بیٹھتا ہے۔ علم انسان کو عاجزی سکھاتا ہے، اور جب علم کی کمی ہو تو انسان ضد اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہے۔
سب سے پہلا قدم خود آگاہی ہے۔ فرد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اختلافِ رائے انسانی فطرت ہے، اور کسی کا مختلف سوچنا اُس کی توہین نہیں۔دوسرا قدم "سننے” کی عادت پیدا کرنا ہے۔ جب ہم دوسروں کی بات سننا سیکھتے ہیں تو ہم نہ صرف انہیں عزت دیتے ہیں بلکہ اپنی سوچ کو وسعت بھی دیتے ہیں۔

ماہرینِ نفسیات مشورہ دیتے ہیں کہ ایسے لوگ Self-Reflection یعنی خود احتسابی کی عادت اپنائیں۔ روزانہ اپنے رویوں کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ کیا ان کے اندازِ گفتگو میں جارحیت یا زبردستی تو شامل نہیں۔ اگر مسئلہ گہرا ہو تو کسی ماہرِ نفسیات یا کونسلر سے مدد لینا بھی مفید ہے۔
اپنی رائے دوسروں پر تھوپنے کا جنون دراصل ایک ذہنی اور نفسیاتی عدم توازن کی علامت ہے۔ یہ رویہ انسان کے تعلقات کو برباد کرتا ہے، مکالمے کو ختم کرتا ہے، اور معاشرے میں برداشت کے بجائے نفرت کو بڑھاتا ہے۔ ایک متوازن اور صحت مند معاشرہ تب ہی قائم ہو سکتا ہے جب ہم دوسروں کی رائے کو سننا، سمجھنا، اور احترام کرنا سیکھیں۔ اختلاف کو دشمنی نہیں، بلکہ فکری تنوع کا ذریعہ سمجھنا ہی ذہنی بلوغت اور سماجی ترقی کی علامت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے