تاریخ کے حالیہ دور میں رونما ہونے والی تبدیلیاں انسانی تصور سے بھی زیادہ تیز رفتار اور عجیب اثرات کی حامل واقع ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ کہی پہ انسان حیرت میں مبتلا ہے تو کہی پہ اسے خطرات کا احساس ہو رہا ہے، کہی پہ امید بھری نظروں سے مستقبل کو دیکھ رہا ہے تو کہی پہ بنیادی اخلاق و اقدار کے بارے میں اسے تشویش لاحق ہے تاہم ہر دل اور دماغ پیش آمدہ تبدیلیوں پر اپنے اپنے انداز میں مصروف دکھائی دے رہا ہے۔ حال ہی میں اس حوالے سے ایک اہم خبر آئی کہ رومن کیتھولک عیسائیوں کے سب سے بڑے مرکز ویٹی کن میں عالمی امن کے حوالے سے ایک بین الاقوامی اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں اسلامی دنیا کی اہم شخصیت شیخ الازہر احمد الطیب نے بھی شرکت کی اور اجلاس میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے لیے ضابطہ اخلاق تشکیل دینے اور مسئلہ فلسطین کے پائدار حل کے بارے میں زریں خیالات کا اظہار کیا۔
شیخ الازہر احمد الطیب نے اس موقع پر اعلان کیا ہے کہ الازہر اور ویٹی کن مشترکہ طور پر مصنوعی ذہانت کے اخلاقی ضابطے کی تیاری کر رہے ہیں، تاکہ جدید ٹیکنالوجی کو انسانی فلاح و بہبود کے لیے مثبت سمت میں استعمال کیا جا سکے۔ مصنوعی ذہانت کو برتنے کے حوالے سے اگر چہ دنیا بھر میں مختلف قسم کے اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں جن کے اندر اس کے اثرات، ثمرات، نتائج اور عواقب پر مختلف پہلوؤں سے غور و خوض ہو رہا ہے لیکن اپنی جامعیت، اہمیت اور وسعت کے اعتبار سے یہ شاید دنیا کی پہلی بڑی تقریب ہے۔
یہ بات انہوں نے روم میں منعقدہ سینٹ ایجیڈیو ورلڈ پیِس سمٹ میں کہی۔ اس سربراہی اجلاس کا عنوان تھا "امن کے لیے عالمی ملاقات: امن قائم کرنے کا حوصلہ تلاش کرنا”۔ اس اجلاس میں اطالوی صدر سرجیو ماتاریلا اور بیلجیم کی ملکہ ماتیلد سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے شرکت کی۔
شیخ الازہر نے بتایا کہ وہ سابق پوپ فرانسس کے ساتھ اس میثاق کی تیاری کا عمل شروع کر چکے تھے، مگر ان کی بیماری اور وفات کے باعث یہ کام مؤخر ہو گیا۔ انھوں نے کہا "اب الازہر، ویٹی کن اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کی مشترکہ ٹیمیں اس دستاویز کو مکمل کرنے پر کام کر رہی ہیں، تاکہ یہ ایک عالمی اخلاقی اور انسانی حوالہ بن سکے، جو انسان اور اس کی تخلیق کردہ ٹیکنالوجی کے تعلق کو درست سمت دے اور اس بات کی ضمانت دے کہ "مصنوعی ذہانت انسان کی خادم رہے، حاکم نہیں”۔
احمد الطیب نے کہا کہ مصنوعی ذہانت اب ایک فیصلہ کن طاقت بن چکی ہے جو کہ انسانی معاشروں میں بڑی تبدیلیاں لا رہی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اسے اخلاقی اصولوں کے تابع رکھا جائے تاکہ انسانی مستقبل کو زیادہ محفوظ، منصفانہ اور متوازن بنایا جا سکے۔
اُنہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ روحانی اور مذہبی اقدار کی حفاظت کسی اختیار کی بات نہیں بلکہ ایک اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ان کے مطابق "ہم ایک اہم تہذیبی موڑ پر کھڑے ہیں … یا تو ہم اس ایجاد کو اخلاقی زوال کا ذریعہ بننے دیں گے یا اسے انسانیت کی راہ درست کرنے کی قوت میں بدل دیں گے”۔
تقریب سے خطاب کے دوران شیخ الازہر نے اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاسوں میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعریف کی، اسے ضمیرِ انسانی کی بیداری اور حق کے ساتھ کھڑے ہونے کا مظہر قرار دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ اقدام آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی سمت ایک عملی قدم ثابت ہوگا، جس کا دار الحکومت بیت المقدس ہو۔
احمد الطیب نے زور دیا کہ دو ریاستی حل ہی خطے اور دنیا میں پائدار امن کا واحد معتبر راستہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ "مشرقِ وسطیٰ میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی۔
اب آتے ہیں اے آئی سے متعلق چند رہنما اصولوں کی طرف، بلاشبہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس جدید دور کا ایک انتہائی اہم اور انقلابی ٹیکنالوجی ہے جو کہ انسانی زندگی کے ہر شعبے میں تیزی سے داخل ہو رہی ہے۔ اس محیر العقول ٹیکنالوجی کے بے پناہ فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ خطرات بھی جڑے ہیں، جن کے پیش نظر اس کے لیے ایک جامع ضابطہ اخلاق کی اشد ضرورت ہے۔ آئیے چند بنیادی رہنما اصولوں طائرانہ تذکرہ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا بنیادی مقصد انسانی فلاح و بہبود کو فروغ دینا ہونا چاہیے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے پروگراموں کو ڈیزائن کرتے وقت انسانی زندگی، صحت اور اقدار کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ طاقت اور سہولت ایسے کاموں میں استعمال ہونی چاہیے جو انسانی زندگی کو بہتر بنائے، بیماریوں کا علاج کرے، اور معاشرتی مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوں۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے متعلق فیصلوں کے عمل کو شفاف اور قابل فہم ہونا چاہیے۔ یہ نہ صرف صارفین بلکہ نگران اداروں کے لیے بھی قابل جانچ ہو۔ جب آرٹیفیشل انٹیلیجنس کوئی فیصلہ کرے تو اس کی بنیاد اور منطق واضح ہونی چاہیے، تاکہ لوگ اس پر اعتماد کر سکیں اور اس کی ذمہ داری کا تعین بھی ہو سکے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی پیشکشیں تعصب اور امتیاز سے پاک ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہ نظام تمام صارفین کے ساتھ یکساں سلوک کرے اور نسلی، مذہبی، لسانی یا جنسی تعصب سے پاک ہو۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے الگورتھمز کو ایسے ڈیٹا پر تربیت دی جانی چاہیے جو کہ متنوع اور نمائندہ ہو تاکہ تمام طبقات کے ساتھ انصاف ہو سکے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے نتائج کے لیے واضح ذمہ داری کا تعین ہونا چاہیے۔ چاہے وہ ڈویلپر ہو، ادارہ ہو یا کوئی صارف، ہر ایک کی ذمہ داریاں واضح ہونی چاہئیں۔ کوئی بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس نظام قانونی اور اخلاقی حدود سے بالاتر ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
ذاتی ڈیٹا کی حفاظت اور صارفین کی رازداری آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ضابطہ اخلاق کا اہم ترین حصہ بطورِ اصول تسلیم ہو۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو ڈیٹا کی حفاظت کے جدید ترین معیارات پر پورا اترنا چاہیے اور تمام صارفین کی ذاتی معلومات کو غیر مجاز رسائی سے محفوظ رکھنا چاہیے۔
اہم فیصلوں میں حتمی اختیار ہمیشہ انسان کے پاس ہونا چاہیے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو انسانی فیصلہ سازی میں معاون کے طور پر استعمال ہو نہ کہ حتمی فیصلہ کرنے والے کے طور پر۔ زندگی اور موت کے فیصلے، قانونی احکامات، اور اہم سیاسی و معاشی فیصلے انسانوں کے ہاتھ میں ہی رہنے چاہئیں۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو ہیکنگ، غلط استعمال، اور ناکامی سے محفوظ بنایا جانا چاہیے۔ ان میں خودکار حفاظتی خصوصیات ہونی چاہئیں جو کہ کسی بھی غیر متوقع صورت حال یا خطرے میں نظام کو محفوظ حالت میں لے جا سکیں۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایک عالمی ٹیکنالوجی ہے، اس لیے اس کے معیارات اور قوانین پر بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے ضروری ہے۔ مختلف ممالک کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ترقی اور استعمال میں ضروری ہم آہنگی پیدا ہو سکے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو ماحول دوست اور پائیدار بنایا بھی ضروری ہے۔ ان کی توانائی کی کھپت کم سے کم ہونی چاہیے اور یہ ماحولیاتی تحفظ کے اصولوں کے عین مطابق ہونا چاہیے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی ترقی اور استعمال میں معاشرے کے تمام طبقات کے مفادات کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ یہ ٹیکنالوجی معاشی تفاوت کو بڑھانے کے بجائے کم کرنے میں مددگار ثابت ہونی چاہیے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ہر نظام میں ایمرجنسی شٹ ڈاؤن کا انتظام ہونا چاہیے، تاکہ کسی بھی غیر متوقع خطرے کی صورت میں متعلقہ نظام کو فوری طور پر محفوظ طریقے سے بند کیا جا سکے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو انسانیت کے لیے مفید بنانا ایک مضبوط ضابطہ اخلاق کا متقاضی ہے۔ اوپر بیان کردہ اصول آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے محفوظ، منصفانہ اور مفید استعمال کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ ان اصولوں پر عملدرآمد کے لیے مسلسل نگرانی، تحقیق، اور بین الاقوامی تعاون ضروری ہے۔ اگر ہم انسان ان اصولوں کو اپنائیں تو آرٹیفیشل انٹیلیجنس انسانیت کی ترقی اور فلاح و بہبود کا ایک طاقتور ذریعہ بن سکتا ہے بصورت دیگر سب سے بڑا خطرہ۔