ادبی خوشبوؤں میں لپٹی ایک شام

بسا اوقات زندگی میں کچھ ملاقاتیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کی یادداشت میں ایک نایاب تحفے کی طرح ہمیشہ محفوظ رہتی ہیں، آج عصر کے بعد کی ملاقات میرے لیے ایک ایسا ہی لمحۂ جاں فزا ثابت ہوئی، جب میں اپنے محترم استاد سید عبد الواجد ایاز صاحب سے ملا، ان کا نام ہی علم و ادب کے گلشن میں مہکتی ہوئی خوشبو کی مانند ہے، جو فکر وفن کی باریکیوں میں غوطہ زن ہوتا ہے اور دلوں کو روشنی عطا کرتا ہے۔

ہماری ملاقات ایک پرانے ہوٹل میں چائے کی خوشبو سے معطر ماحول میں ہوئی، جہاں ہر گھونٹ کے ساتھ فکر و دانش کے موتی بکھرتے چلے گئے، چائے کی پیالی کو لبوں سے لگاتے ہوئے ان کی باتوں میں جو وقار اور نرمی تھی، اس نے محفل کو ایک خاص کشش بخش دی، ہم نے فکری، ادبی اور معاشرتی مسائل پر گفتگو کی، استاد محترم نے ایک خاص بات پر زور دیا جو مجھے خاصی متاثر کر گئی: "روزانہ کسی بڑے عالم یا مفکر کے مضامین کا مطالعہ کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے فکر کی تازگی اور سوچ کی اصلاح ہوتی ہے۔” یہ کہتے ہوئے انہوں نے بتا کہ وہ خود روزانہ مولانا زاہد الراشدی صاحب کے مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں جو کہ ان کی فکر کی گہرائی کا راز تھا۔

سید عبد الواحد ایاز صاحب عربی ادب کے ماہرین میں سے ہیں، اور ساتھ ہی تخصص فی اللغۃ العربیہ و الإنجلیزیہ کے طلباء کی علمی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں، لیکن ان کی علمی استعداد محض عربی و انگریزی تک محدود نہیں، اردو ادب پر بھی ان کی گہری نظر اور قلم کی روانی بے مثال ہے، ان کا انداز ایسا ہے کہ ان سے ملتے ہی دل محبت و احترام سے بھر جاتا ہے۔

چہرے پر ہمہ وقت ایک شگفتہ مسکراہٹ، گفتگو میں وقار اور شفقت کا امتزاج، اور بات کرنے کا ایسا سلیقہ ہے کہ مخاطب کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہی ان کی توجہ کا مرکز ہے، استاد صاحب کا شاعری اور ادب سے عشق بھی بے مثال ہے، اردو اور فارسی اشعار کا ذوق رکھتے ہیں اور عربی کے بے شمار اشعار تو گویا ان کے حافظے کا حصہ ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے خاندان میں بھی یہ ادبی ذوق پایا جاتا ہے، ان کے بہن بھائی اردو ادب سے وابستہ ہیں، اور ایک بھائی اردو کے شاعر بھی ہیں، یہ گویا ایک ادبی خانوادہ ہے جہاں ہر فرد علم و ادب کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ رکھتا ہے۔

چائے کے دوران میں نے ایک لمحہ غنیمت جانا اور اپنا ایک مضمون ان کے سامنے پیش کیا، تاکہ وہ تنقیدی نظر سے دیکھیں اور جہاں ضروری ہو اصلاح فرمائیں، ان کی طرف سے مسکراتے ہوئے مضمون قبول کرنے کا منظر میرے دل میں ہمیشہ محفوظ رہے گا، کیونکہ ایک استاد کی رہنمائی کسی بھی طالب علم کے لیے سب سے قیمتی سرمایہ ہوتی ہے۔

یہ نشست میرے لیے نہ صرف علمی سیرابج کا باعث بنی بلکہ ایک یادگار تجربہ بھی تھی۔

سید عبد الواجد ایاز صاحب کی شخصیت میں جو سنجیدگی، شفقت اور علم کی خوشبو تھی، اس نے مجھے ادب کی نئی راہوں کی جانب راغب کیا، چائے کا ہر گھونٹ گویا ان کی باتوں کے ساتھ میری فکر میں ایک نیا ذائقہ گھولتا رہا، اور ان کی گفتگو کی مٹھاس دیر تک دل میں اترتی رہی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے