چین امریکہ کے مذاکرات اور عالمی معیشت

چین اور امریکا کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب عالمی معیشت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے اور یہی بات ان مذاکرات کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے ۔یہ بات اب صرف دو ملکوں کے درمیان تجارتی تنازعات تک محدود نہیں رہی بلکہ پوری دنیا کی معاشی صحت کا اشارہ بن چکی ہے۔

امریکہ کی جانب سے 2018ء سے عائد کردہ محصولات کی پالیسیاں اب اپنے ہی معاشرے پر الٹا اثر ڈال رہی ہیں۔ پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی معاشیات جیسے اداروں کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان محصولات نے امریکی گھرانوں کے سالانہ اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ خاص طور پر آٹوموٹو پرزوں اور الیکٹرانکس جیسے شعبوں میں، جہاں سپلائی چین کا چین کی مینوفیکچرنگ سے گہرا تعلق ہے، قیمتوں میں اضافہ نے امریکی عوام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔یہ مصنوعی مہنگائی امریکی فیڈرل ریزرو کے افراط زر کے دباؤ سے نمٹنے کی کوششوں میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے، جس سے شرح سود میں ایڈجسٹمنٹ کے اثرات کم ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب بحرالکاہل کے پار چین نے سویابین کی اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اور ارجنٹائن جیسے نئے ذرائع تلاش کر لیے ہیں، جس سے امریکی کسان اپنی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی معاشی نظام کے خلاف  یکطرفہ پالیسیوں کے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔ یعنی یکطرفہ محصولات لگانے والے خود ہی اس کی زد میں آرہے ہیں۔

سیمی کنڈکٹرز اور نایاب زمینی معدنیات (rare earths) کے شعبوں میں ہونے والی کشمکش عالمی سپلائی چینز کے متناقص ڈھانچے کو واضح کیا ہے۔ چپ کی برآمدات پر امریکی پابندیوں نے چین کی ہائی ٹیک ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کے نتیجے میں چین میں خود کفالت کی دوڑ تیز ہو گئی ہے۔

چین شاید خام معدنیات پر مکمل اجارہ داری نہ رکھتا ہو، لیکن ان معدنیات کو اعلیٰ معیار کی مصنوعات میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ چین کے پاس ہے۔

دوسری جانب، امریکی سیمی کنڈکٹر کمپنیاں دنیا کی سب سے بڑی چپ مارکیٹ سے کٹ جانے کے منفی اثرات بھگت رہی ہیں۔ مستقبل میں امریکہ کے تحقیق و ترقی کے شعبے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے مسلسل خبردار کیا ہے کہ امریکا اور چین کے تجارتی تنازعات عالمی معیشت کے لیے خطرہ ہیں۔ان کے مطابق، محصولات کے تنازعات میں اضافہ عالمی جی ڈی پی میں کھربوں ڈالر کے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔دوسری جانب  عالمی تجارتی ادارہ (ڈبلیو ٹی او) جدت اور اپنی افادیت برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، جبکہ دنیا میں حریف علاقائی بلاکس تیزی سے تشکیل پا رہے ہیں۔

جبکہ حفاظتی پالیسیوں کا رجحان عالمی تجارتی قوانین کو خطرناک حد تک تقسیم کر رہا ہے۔

بین الاقوامی چیلنجز پر غور کریں تو باہمی تعاون کی افادیت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے چین کی شمسی توانائی کی صنعت میں برتری اور امریکا کی توانائی ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجی میں ترقی ایک دوسرے سے مل کر توانائی کے شعبے میں سبز   انقلاب برپا کرنے کا زبردست امکان رکھتی ہیں۔

آج دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے سامنے انتخاب واضح ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ”عقلمند لوگ پل تعمیر کرتے ہیں، جبکہ بیوقوف لوگ دیواریں کھڑی کرتے ہیں۔” تو اب یہ دونوں فریقین پر منحصر ہے کہ وہ اس بحرانی کیفیت میں جس میں دوطرفہ نقصان کا خدشہ ہے ان حالات میں پل تعمیر کرتے ہیں یا پھر کسی فریق کی جانب سے دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہمارے موجودہ دور میں، جہاں انسانی زندگی کا تصور ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ گہرا ہوتا جا رہا ہے، وہاں "تعاون دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہے، جبکہ تصادم دونوں کے لیے نقصان دہ ہے” کا اصول محض قدیم مشرقی فلسفہ نہیں رہا۔ یہ مؤثر عالمی معاشی حکمرانی کے لیے ایک ناگزیر، عملی تقاضا بن چکا ہے۔ آج جو پل تعمیر ہوں گے، چاہے وہ کتنے ہی عارضی کیوں نہ ہوں، وہی آنے والے کل کی خوشحالی اور استحکام کا تعین کریں گے۔

جہاں تک بات ہے دونوں ممالک کے درمیان حالیہ معاشی مذاکرات کی تو اس وقت تک مثبت پیش رفت نظر آرہی ہے۔ چین  کے بین الاقوامی تجارتی مذاکرات کار اور نائب وزیر تجارت لی چینگ گانگ نے مذاکرات کے بعد کہا کہ چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی  وفود نے باہمی تشویش کے اقتصادی اور تجارتی مسائل پر  تفصیلی اور مخلصانہ تبادلہ خیال کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت میں متعدد موضوعات شامل رہے، جن میں دونوں فریقوں کی جانب سے برآمدات پر کنٹرول کے مسائل، مساوی محصولات کی معطلی کی میعاد میں مزید توسیع کا معاملہ، فینٹانائل کے محصولات اور انسداد منشیات تعاون کا معاملہ، تجارت میں مزید توسیع کا معاملہ، اور امریکی فریق کے 301 جہاز رانی سے متعلق اقدامات وغیرہ شامل تھے۔ چین اور امریکہ نے ان معاملات پر تعمیری بات چیت کی ہے، جس میں امریکی موقف سخت تھا جبکہ چین نے اپنے مفادات کے تحفظ میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔

ایک دن سے زیادہ کے انتہائی گہرے اورپیچیدہ مذاکرات کے بعد، چین اور امریکہ نے مذکورہ مسائل کے بارے میں دونوں فریقوں کی تشویش کے مناسب حل کے لیے تعمیری تجاویز پر بات کی اور ابتدائی اتفاقِ رائے تک پہنچے ۔ اگلے مرحلے میں دونوں فریق اپنے اپنے اندرونی منظوری کے طریقہ کار پر عمل کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے