موہڑا مرادو میں ایک دوپہر

انسان جب بھی آج کے ، جدید ٹیکسلا شہر کے، پُر ہجوم، مصروف اور شور و غُل سے بھرپور ماحول سے نکل کر ویران اور سنسان کھنڈرات میں پہنچتا ہے تو وہ دراصل ایک سرحد پار کر جاتا ہے ۔ وہ ایک ایسے مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں شور نہیں، ہجوم نہیں، آلودہ فضا نہیں بلکہ خاموشی ہوتی ہے، ویرانی ہوتی ہے،ہوا کے نرم جھونکوں کے ساتھ ، روح پرور فضا ہوتی ہے ۔ اسی دلربا ماحول میں ، اسی خاموشی اور ویرانی میں انسان تاریخ ، فن ،علم اور ادب کی سرگوشی سنتا ہے ۔

تہذیب ، حکمت ،عقیدت ،روحانیت اور جستجو کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا ہے ۔ جدید مگر عدم برداشت ،انتہا پسندی ،خود پسندی اور گھٹن زدہ دور کا انسان کبھی سرکپ کے متنوع شہر میں مختلف مذاہب کی مذہبی عمارات کو ایک دوسرے کے قریب دیکھ کر قدیم اہل سرکپ کی امن پسندی اور قلبی و نظری وسعت پر عش عش کر اٹھتا ہے تو کبھی دھرماراجیکا ،جولیاں اور موہڑا مرادو جیسی قدیم جامعات اور خانقاہوں میں پانینی، چانکیہ اور بدھ بھکشوؤں کے علمی مرتبے اور جستجو کا معترف ہوتا ہے ۔

اُس روز ہم بھی اسی سرحد کو پار کر کے پہنچ گئے، موہڑا مرادو کے کھنڈرات میں ۔ مقامی گائیڈ کی راہنمائی میں موہڑا مرادو ، سٹوپا اور خانقاہ کا تفصیلی دورہ کیا ۔

بدھ مت کی یہ خانقاہ اور استوپ اپنے قریبی گاؤں موہڑا مرادو کے نام سے منسوب ہے۔ یہاں عبادات کے لیے مغربی جانب ایک استوپ اور مشرقی جانب اساتذہ اور طلباء کے رہنے کی خانقاہ ہے۔ موہڑا مرادو کی عبادت گاہ شہری شور و غل سے دور ہتھیال پہاڑی کی دو سطحوں کے درمیان پر امن گیان دھیان کیلئے بنائی گئی تھی۔ اس خانقاہ کا تعلق دوسری صدی عیسوی سے ہے۔

استوپ ۲۶. ۴ میٹر اونچے بنیادی چبوترے پر ایستادہ ہے جسکی مشرقی جانب سیڑھیاں ہیں۔ کنجور کے پتھر کے پتلے ستون بنیادی چبوترے کو مختلف حصوں میں تقسیم کرتے ہیں جنہیں مہاتما بدھ، بدھی ستوا اور دوسرے دیوتاؤں کے چونے سے بنائے ہوئے خوبصورت مجسموں سے سجایا گیا تھا۔ زینہ کے جنوب میں مربع بنیاد کا ایک منتی استوپ ہے جسے چونے کے مجسموں سے سجایا گیا ۔

گندھارا طرز کی خانقاہ ۲۷ کمروں پر مشتمل ہے جس کے درمیان مربع شکل کا صحن ہے۔ یہاں کی نایاب دریافت خانقاہ کے کمرہ نمبرہ میں ۳.۶ میٹر اونچا گول منتی استوپ ہے۔ اسمبلی ہال، باورچی خانہ، کھانے کا کمرہ اور غسل خانے خانقاہ کے مشرقی جانب واقع ہیں۔ پانچویں صدی کے آخر میں سفید ہنز کے حملوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی ، معاشی بدحالی اور بدامنی کے پیش نظر بدھ مت کے پیروکار ،موہڑا مرادو، کو بھی ٹیکسلا کی دوسری خانقاہوں کی طرح چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ یوں وحشت کے ہاتھوں ،علم ، حکمت اور روحانیت کے گہوارے ویران ہوئے اور پھر خاک اوڑھ کر سو گئے ۔ بیسویں صدی عیسوی میں سر جان مارشل نے اِن پر سے خاک کی چادر ہٹائی ، انہیں جگایا ، اُن سے کلام کیا ، انہیں سنوارا اور پھر اس خطے کے باسیوں سے اُن کے عظیم الشان علمی ،فکری اور روحانی ماضی سے روشناس کروایا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے