بندہ جب اپنے عہدے کے مانے ہوئے معروف سیاست دان خان عبدالغفار خان کے گھر پیدا ہو کر ، چارسدہ کی مٹی اور کھیت کھلیانوں کی خوشبوؤں کے درمیان چندے سے چلنے والے سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کرے۔ پھر جامع ملیہ دہلی سے دینی و عصری علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن میں شعر و ادب، مصوری اور مجسمہ سازی کے فنون سے پوری طرح آشنا ہو۔ لندن جا کر پادری کے ہاں عیسائیت کا قریب سے مشاہدہ اور مطالعہ کرے پھر امریکہ سے کیمیکل انجینئرنگ پڑھے۔
ملازمت بھی کرے، سیاست بھی کرے، انگریز دور کی اسمبلی کے ممبر بھی بنے، قدرت نے شکل کی خوبصورتی اور شخصیت کی وجاہت کے ساتھ ساتھ ذہن بھی غیر معمولی عطا کیا ہو، شاعر بھی ہو، ادیب بھی ہو، فلسفی بھی ہو، پشتو کے ساتھ اردو اور انگریزی میں بھی اعلیٰ پائے کی کتب لکھے، تو ان کے بارے میں ، یا ان کے افکار اور کمالات پر لکھنا یا ان کے بارے میں دوسروں کو پوری آگاہی دینا، کسی ایک شخص یا ایک نشست کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت اور ان کے کمالات اور خصوصیات کو Exploreکرنے کے لیے بہت ساری کتابیں اور بہت سارا وقت چاہیے۔
اس ضمن میں اپنا تازہ فریضہ ہماری محترمہ ڈاکٹر خالدہ نسیم صاحبہ نے ادا کیا ہے، جنہوں نے خان عبدالغنی خان کی منتخب نظموں کا ترجمہ کر کے، ان کے فکر و نظر کو انگریزی دان طبقے کے مطالعے کی نذر کیا ہے، بلکہ ان کے طفیل سے آج ہمیں اس حوالے سے اپنے خیالات ایک دوسرے کے ساتھ شریک کر نے کا موقع ملا ہے۔
پشتو ادب کی شعری روایت میں غنی خان کا نام ایک ایسے شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے، جس نے نہ صرف پشتو شاعری کو ایک نیا فکری زاویہ دیا بلکہ اپنے فن و اسلوب کے ذریعے ایک جداگانہ مکتبِ خیال کی بنیاد بھی رکھی۔ اُن کی شاعری میں وہ فکری گہرائی اورفنی ندرت پائی جاتی ہے جو انہیں روایت سے الگ ایک منفرد شناخت عطا کرتی ہے۔
اگرچہ غنی خان نے انگریزی ادب سے گہرا استفادہ کیا، تاہم انہوں نے شعوری طور پر اس بات کا اہتمام کیا کہ پشتو شاعری اپنی تہذیبی بنیاد، داخلی آہنگ اور قومی مزاج کے دائرے میں پروان چڑھے۔ ان کے نزدیک پشتو شعر کا حسن اسی وقت برقرار رہ سکتا ہے جب وہ اپنی فطری لہروں اور قومی ذوق کے مطابق نمو پائے۔
غنی خان نے کلاسیکی روایت سے ہٹ کر لوک آہنگوں اور عوامی موسیقیت کے وہ اوزان اپنائے جن میں چستی، روانی اور صوتی تندی نمایاں ہے۔ ان کی شاعری میں یہ آہنگ محض فنی تجربہ نہیں بلکہ فکری توانائی اور تخلیقی جوش کا مظہر ہے۔
ان کی شاعری میں حسن، عشق، فطرت، انسان اور کائنات — سب ایک ہم آہنگ اکائی کے طور پر جلوہ گر ہیں۔ یہی ہم آہنگی ان کے کلام کو فکری گہرائی، تخلیقی تازگی اور ادبی وقار عطا کرتی ہے۔
موجودہ عصری تناظر میں غنی خان کی شاعری کی معنویت پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں اور مؤثر دکھائی دیتی ہے۔ آج جب انسان مادیت، تعصب، انتہا پسندی اور فکری انتشار میں الجھا ہوا ہے، غنی خان کا پیغام انسان کو اُس کی اصل — یعنی انسانیت، محبت، علم، جمال اور کائنات — کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ انسان کو ظاہری لبادوں سے بلند ہو کر اپنے حقیقی مقصد اور اپنی اندرونی آزادی کو پہچاننے کا سبق دیتے ہیں۔
غنی خان کا تصورِ کائنات، تصورِ حسن، فکرِ انسانیت اور تخلیقی آزادی آج کے نوجوان کے لیے فکری رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے ہاں انسان محض مخلوق نہیں بلکہ تخلیق کا مظہرِ اعلیٰ ہے — ایک ایسا وجود جو عقل و عشق کی ہم آہنگی سے اپنی تخلیقی عظمت کا شعور حاصل کرتا ہے۔
غنی خان صرف جمال کے نہیں بلکہ بیداری کے بھی شاعر ہیں۔ وہ اپنی قوم کے جمود، تنگ نظری اور جہالت پر تنقید کرتے ہوئے علم، آگہی اور روشنی کا پیغام دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فطرت کے رنگ، انسان کی روح اور فن کی معنویت ایک وحدت میں ضم ہو جاتے ہیں۔ یہی ان کا کمال ہے کہ وہ فلسفے کو شاعری اور شاعری کو فلسفے میں ڈھال دیتے ہیں۔ ان کا پیغام انسان دوستی، حسنِ فطرت اور خودی کی بیداری کا پیغام ہے — جو نہ صرف پشتو ادب بلکہ عالمی فکری روایت میں بھی ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
میری رائے میں غنی خان محض ایک دور یا نسل کے شاعر و مفکر نہیں، بلکہ ان کا مقام وقت اور سرحدوں سے ماورا ہے۔ جیسے شیکسپیئر اور دیگر عالمی اہلِ فکر و فن کے کارناموں کا فیصلہ ایک زمانہ نہیں بلکہ صدیوں نے کیا ہے، اسی طرح غنی خان کی فکری عظمت بھی وقت کے ساتھ مزید نکھرتی جائے گی ۔ اس تناظر میں ڈاکٹر خالدہ نسیم بجا طور پر تحسین کی مستحق ہیں کہ انہوں نے غنی خان کی اڑسٹھ منتخب نظموں کا نہایت نفاست اور کامیابی سے ترجمہ کیا۔
آج کی یہ علمی و ادبی نشست، جو بیسویں صدی کے ایک نہایت عظیم اور ہمہ گیر شاعر و مفکر — غنی خان — کے فکر و فن کے تراجم کے حوالے سے منعقد کی گئی ہے، اسلام آباد کی ادبی تاریخ میں یقیناً ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس کے منتظمین بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں، کیونکہ غنی خان پشتون قوم کے ہزاروں سالہ فکری و تہذیبی سفر کے وہ روشن مینار ہیں، جن کے آثار آج بھی عالمی فکر و ادب کو تازگی عطا کر سکتے ہیں۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے فکر و نظر کو مکمل طور پر Explore کیا جائے اور انہیں عالمی سطح پر متعارف کرایا جائے۔
محترمہ ڈاکٹر خالدہ نسیم کا غنی خان کی منتخب نظموں کا یہ انگریزی ترجمہ — “The Echoes from the Mountain” — اسی فکری جستجو کی ایک درخشاں کڑی ہے۔ مترجمہ نے غنی خان کے افکار و خیالات کو انگریزی زبان میں نہایت فصاحت، شائستگی اور فکری وفاداری کے ساتھ منتقل کیا ہے۔
کتاب کے آغاز میں شامل “Introduction” کے عنوان سے غنی خان کی شخصیت، سوانح اور شعری جہتوں پر جو جامع اور دل نشین گفتگو کی گئی ہے، وہ اس کتاب کی وقعت کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب وہی کردار ادا کرے گی جو میجر راورٹی (Raverty) کے تراجم نے علامہ اقبال کے لیے خوشحال خان خٹک کے فکری تعارف کے ضمن میں ادا کیا تھا۔
جہاں تک تراجم کے فنی اور تکنیکی پہلوؤں کا تعلق ہے، مترجمہ نے غنی خان کے افکار کو اُن کے مخصوص لہجے اور فکری فضا میں منتقل کیا ہے۔ نہ تو انہوں نے مفہوم کو سطحی بنایا، نہ ہی اسے الجھایا — بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ انگریزی زبان میں بھی غنی خان کی شاعری کی روح کو سلامت رکھا گیا ہے۔ یہ وہ وصف ہے جو ترجمے اور تخلیقی تعبیر (Exploration) کے درمیان باریک فرق کو واضح کرتا ہے اور شاعری کے حسن کو برقرار رکھتا ہے۔
اصل نظموں اور اُن کے انگریزی عنوانات میں اگرچہ معمولی تبدیلیاں ضرور موجود ہیں، جو اُن قارئین کے لیے کسی حد تک پیچیدگی پیدا کرسکتی ہیں جنہوں نے یہ نظمیں پشتو میں بھی پڑھی ہیں، تاہم مترجّمہ کے منتخب عنوانات کے اندر موجود ربط اور ترتیب کی خوبصورتی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے علاوہ بعض نظموں میں چند مصرعوں کے تراجم شامل نہیں، جس سے کچھ مقامات پر فنی تسلسل میں معمولی خلل پیدا ہوتا ہے — مثلاً نظم “یو آن” کے انگریزی ترجمے “Destiny, Make This Moment Long” میں مصرعہ “سبا له تور کړه ټول جهان په تيارو” کا ترجمہ موجود نہیں —
اسی طرح نظم “رېدي ګل” جس کا ترجمہ “A Charming Flower” کے عنوان سے کیا گیا ہے، اس کے ایک مصرعے:
“زه خفه ئې خوا له لاړم، ما وې آه زما په شان”
کا ترجمہ:
“I came closer and whispered,
Ah, like me, my friend,”
اگرچہ بظاہر خوبصورت ہے، مگر “د خفه خواله له تللو” کے اس لطیف جذباتی پہلو کو پوری طرح نہیں سمیٹ پاتا جو اصل شعر میں پوشیدہ ہے۔
مزید یہ کہ مترجمہ مجموعے میں شامل دو نظمیں — “Life” اور “Man, Like a Star” — ایسی ہیں جن کے اصل متون غنی خان کے شعری مجموعوں میں دستیاب نہیں۔ ممکن ہے مترجمہ کے پیشِ نظر ان کے مخصوص ماخذ ہوں، تاہم اس طرح کے ابہام سے بچنے کے لیے اصل پشتو متن کی شمولیت ضروری محسوس ہوتی ہے۔
اس کے باوجود بھی، ڈاکٹر خالدہ نسیم کی یہ علمی کاوش نہایت اہم اور لائقِ تحسین ہے۔ موجودہ عالمی تناظر میں غنی خان کے کلام کے انگریزی تراجم غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف پشتو ادب کے تعارف کا ذریعہ ہیں بلکہ غنی خان کی آفاقی فکر کو بین الاقوامی ادبی مکالمے کا حصہ بناتے ہیں۔
غنی خان کی شاعری انسان، عقل، عشق، حسن اور وجدان کی ہم آہنگی پر مبنی وہ فکری کائنات ہے جو پوری انسانیت کے مشترکہ احساسات سے جڑی ہوئی ہے۔
ان کے تراجم مغربی قاری کو مشرقی روحانیت، فلسفیانہ تفکر اور جمالیاتی تجربے کو پشتو زاویۂ نظر سے سمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
عصرِ حاضر کے تناظر میں، جب دنیا عالمگیریت (Globalization) اور بین الثقافتی مکالمے (Cross-cultural Dialogue) کے دور سے گزر رہی ہے، غنی خان کے یہ تراجم مشرق و مغرب کے درمیان ایک فکری و تہذیبی پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ پشتو ادب کو عالمی ادبی منظرنامے میں وہ مقام عطا کرتے ہیں جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر خالدہ نسیم کی یہ کاوش نہ صرف ادبی خدمت ہے بلکہ فکری اور تہذیبی ترسیل کا ایک روشن وسیلہ بھی ہے — جو آج کے عالمی انسان کے ذہن و دل، دونوں کو مخاطب کرتی ہے۔
خدا کرے کہ ڈاکٹر صاحبہ کی یہ علمی محنت پشتون قوم کے فکری ورثے کے فروغ اور عالمی ادبی مکالمے کی توسیع میں ایک قیمتی سنگِ میل ثابت ہو۔