برسوں کی خانہ جنگی نے سوڈان کے معاشرتی، اقتصادی اور انسانی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس جنگ زدہ خطے میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے گروہ ہیں، جنہیں نہ صرف جسمانی خطرات کا سامنا ہے بلکہ نفسیاتی اور سماجی صدمات کا بھی سامنا ہے۔ گھروں اور کمیونٹی مراکز کی تباہی کی وجہ سے یہ لوگ حفاظتی حصار سے محروم ہو گئے ہیں، اور بچوں کی تعلیم، کھیل اور نشوونما کے بنیادی مواقع شدید حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ بھوک، بیماری اور بے گھری نے ان کے روزمرہ معمولات کو غیر یقینی بنا دیا ہے اور نسلی تشدد و جنسی زیادتی کی وارداتوں نے معاشرتی ڈھانچے میں سخت خلل ڈال دیا ہے۔
خواتین پر ہونے والا تشدد نہ صرف ان کی جسمانی صحت کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ یہ ان کے خاندانوں اور کمیونٹی کے رویّوں پر بھی مہلک اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اس طرح کے بحرانوں میں نسلی تشدد کی وارداتیں اور جنسی تشدد کی کارروائیاں نسلی تعلقات کو دائمی داغ دیتی ہیں۔ نتیجتاً بچوں کو چھوٹی عمر میں یتیم، معذور یا شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار بننے کی راہ مل جاتی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے بار بار خبردار کر چکے ہیں کہ ایسے حالات نسل در نسل منتقل ہونے والے نفسیاتی صدمات کی زد میں ہوتے ہیں، جس سے پورے خطے میں طویل المدتی ذہنی اور سماجی مشکلات جنم لیتی ہیں۔
اسی دوران بچوں کی حالت بھی کم ہولناک نہیں ہے۔ لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں، بھوک کا سامنا کر رہے ہیں اور جنگ زدہ ماحول میں پرورش پا رہے ہیں۔ وہ مسلسل خوف، اضطراب اور تشدد کی زد میں رہتے ہیں، جس سے ان کی ذہنی نشوونما شدید متاثر ہوئی ہے۔ بچوں کی نقل و حرکت محدود ہو گئی ہے اور بہت سے بچوں کو عبوری کیمپوں یا یتیم خانوں میں بھیجنا پڑا ہے، جہاں سہولیات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غذائی قلت اور صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی بچوں کی اموات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے اور جو بچے بچ بھی جائیں ان کی زندگیوں پر نفسیاتی داغ دیرپا رہ جاتے ہیں۔ خواتین اور بچوں پر پڑنے والے یہ مہلک اثرات موجودہ انسانی بحران کی شدت بتاتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ اس خانہ جنگی نے سماجی ڈھانچے اور نسلوں کے مستقبل کو کس حد تک تباہ کر دیا ہے۔
یہ طویل بحران اُس شہر الفاشر جیسے مقامات سے جڑا ہوا ہے، جہاں کبھی زندگی امید اور مسرت کی علامت تھی لیکن اب وہ بارود اور خوف کی لپیٹ میں ہے۔ سوڈان کی خانہ جنگی، جو اپریل 2023 سے مسلسل انسانی تاریخ کے سیاہ ابواب رقم کر رہی ہے ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ شمالی دارفور کے اس تاریخی شہر پر ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے قبضے نے پورے خطے کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ دو ہزار سے زائد لاشیں، ویران گلیاں، جلتی عمارتیں اور اسپتالوں میں خون سے تر فرش یہ سب انسانی المیے کی ایسی گواہی ہیں جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں، مگر ردِعمل اب بھی مدھم ہے۔
سوڈانی حکومت نے آر ایس ایف کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیرِ اطلاعات خالد الاعیسر کے بقول، ملیشیا نے الفاشر اور شمالی کردفان کے شہر بارا میں شہریوں کے دلوں میں خوف بو دیا گھروں کو ویران اور خاندانوں کو اجاڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ محض لڑائی نہیں ہے یہ منظم دہشت گردی ہے جس میں خواتین، بچوں کو نہیں بخشا گیا نہ بزرگوں کو۔ حکومت کی اپیل ہے کہ عالمی میڈیا اس ظلم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرے تاکہ حقیقت دفن نہ ہو۔
دارفور کی علاقائی حکومت کے مطابق الفاشر میں اب تک دو ہزار سے زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ شہر کا مواصلاتی نظام تباہ ہو چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، آر ایس ایف کے جنگجوؤں نے شہر میں داخل ہونے کے ابتدائی چند گھنٹوں میں ہی سات سو افراد کو قتل کیا۔ سب سے ہولناک منظر سعودی اسپتال میں سامنے آیا جہاں 450 سے زائد مریض، زخمی اور طبی عملے کے ارکان اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنے۔ اسپتال کے کمروں میں لاشیں ایک دوسرے پر گری پڑی تھیں اور وہاں بچوں کی رونے کی آوازیں گونجتی رہیں۔
مزید اطلاعات کے مطابق تین سو سے زیادہ افراد کو اغوا کیا گیا ہے، زیادہ تر وہ جن کے خاندان مالی طور پر مستحکم تھے۔ تاوان نہ دینے پر قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ شہر میں وحشت کا یہ عالم ہے کہ زندہ بچ جانے والے خود کو قسمت کا دھوکا خوردہ سمجھنے لگے ہیں۔ ادھر آر ایس ایف کے معاون اور تاسیس اتحاد کے رہنما حسب النبی محمود نے قتلِ عام کے الزامات مسترد کیے ہیں، اور موقف اپنایا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ ایک فوجی تصادم تھا۔ تاہم، ان کا بیان عالمی برادری کو مطمئن نہ کر سکا۔ اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے رپورٹ دی ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد اور اجتماعی قتل کے واقعات میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ دارفور کی زمین ایک بار پھر اسی نسلی نفرت کے شعلوں میں جل رہی ہے جنہوں نے دو دہائی قبل بھی لاکھوں زندگیاں نگل لی تھیں۔
اسی دوران عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے الفاشر کے سعودی زچگی اسپتال میں 460 سے زائد مریضوں اور لواحقین کی اموات کی خبر پر گہرا صدمہ ظاہر کیا ہے۔ تنظیم کے مطابق، صحت کے مراکز پر اب تک 185 حملے ریکارڈ کیے جا چکے ہیں جن میں 1200 سے زائد افراد مارے گئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ ادارے نے سوڈان میں فوری جنگ بندی کا زور دیا ہے تاکہ انسانی جانیں بچائی جا سکیں۔
صورتحال کو مزید سنگین بناتے ہوئے، ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا کہ سوڈانی وزارتِ خارجہ نے اس کے دو اعلیٰ اہلکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں 24 ملین سے زائد افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور انسانی امداد کے لیے رسائی پہلے ہی محدود ہے۔ ادارے کے مطابق یہ اقدام ان کی سرگرمیوں کو براہِ راست خطرے میں ڈال رہا ہے، جو پہلے ہی بھوک اور فاقہ کشی کے دہانے پر کھڑے لاکھوں افراد کے لیے اہم سہارا ہیں۔
جنرل عبدالفتاح البرہان نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی افواج الفاشر سے پیچھے ہٹ گئی ہیں، مگر انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ شہر کے باسیوں کے خون کا بدلہ ضرور لیا جائے گا۔ ان کے یہ الفاظ جنگ کے مزید پھیلنے کے اندیشے کو تقویت دیتے ہیں۔ اب سوڈان مشرق اور مغرب کے دو متوازی محوروں میں تقسیم ہو چکا ہے آر ایس ایف دارفور میں اپنی متوازی حکومت قائم کیے ہوئی ہے، جبکہ فوج شمال، مشرق اور مرکزی علاقوں میں قابض ہے۔
سوڈان کا یہ المیہ سیاسی اقتدار کی کشمکش نہیں ہے یہ انسانیت کی بقاء کا سوال ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں دس لاکھ سے زائد بچے بھوک سے مرنے کے خطرے میں ہیں، جہاں اسپتال قبروں میں بدل گئے ہیں، جہاں انسانوں کو ان کی نسل کی بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہے وہاں عالمی ضمیر کی خاموشی بھی ایک دوسرا جرم ہے۔ الفاشر اب محض ایک شہر نہیں رہا انسانیت کے امتحان کا استعارہ بن چکا ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی آنکھیں بند رکھی، تو سوڈان کے خیموں میں جلتی بھوک، پیاس اور خوف کی آگ پوری انسانیت کے گریبان تک پہنچ جائے گی۔