پاکستان میں فوج اور سیاست

پاکستان میں فوج اور سیاست کے درمیان مطلوب تعلقات کی بنیاد آئینی بالادستی اور اختیار کی واضح تقسیم پر منحصر ہے۔ جمہوری اصولوں کے مطابق فوج کا بنیادی کام ملکی سلامتی اور دفاع ہے، جبکہ حکومت سازی، قانون سازی اور پالیسی سازی کا عمل عوامی نمائندوں کے ذریعے ہونا چاہیے۔ مثالی صورت حال وہ ہوگی کہ جہاں فوج پیشہ ورانہ حدود میں رہتے ہوئے قومی دفاع کے فرائض انجام دے، اور منتخب حکومتیں عوامی مفاد میں پالیسیاں بنانے کے لیے آزاد ہوں۔ دونوں اداروں کے درمیان اعتماد اور باہمی احترام کا رشتہ بھی ہونا چاہیے، جہاں سب کے سامنے قومی مفاد کو فوقیت حاصل ہو۔

تاریخی تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی فوج نے براہ راست سیاسی عمل میں مداخلت کی ہے، اس سے جمہوری ارتقاء رکا ہے اور سیاسی استحکام متاثر ہوا ہے۔ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق فوج اور سیاست کے درمیان ایک متوازن تعلق کی اشد ضرورت ہے، جہاں فوج قومی سلامتی کے معاملات میں اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کرے، مگر سیاسی فیصلہ سازی کا عمل عوامی نمائندوں کے پاس رہے۔ اس سے نہ صرف اداروں کی مضبوطی ممکن ہوگی بلکہ پاکستان کی جمہوری روایات بھی مستحکم ہوں گی، جس کا فائدہ عوام کو پہنچے گا۔

موجودہ دور عالمی سطح پر بے رحمی سے طاقت کے حصول اور استعمال کے حوالے سے ایک مشکل ترین دور ہے۔ یہ بے رحم کھیل مقامی سطح سے لے کر عالمی سطح تک یکساں شدت سے جاری و ساری ہے۔ عالمی عزائم اور مقامی احوال ایک دوسرے سے بری طرح برسرِ پیکار ہیں۔ نوع بہ نوع تنازعات اور پیچیدگیوں نے دنیا بھر کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حالات تہہ در تہہ اور باہم بری طرح الجھے ہوئے ہیں جن کے اندر حضرت انسان کا خون رائگاں، دانش پریشاں، تحفظ خطرے میں اور مفاد غیر محفوظ ہو کر رہ گئے ہیں۔

موجودہ زمانے میں مضبوط دفاع قوموں کی سب سے بڑی ضرورت اور مجبوری ہے اس حقیقت سے کوئی بھی باشعور شہری انکار نہیں کر سکتا۔ پاکستان اپنے جغرافیائی ساخت، سماجی ڈھانچے اور سیاسی احوال کی وجہ سے گزشتہ چار پانچ دھائیوں سے سخت ترین مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ معاشی اور صنعتی ترقی کا عمل تقریباً رک گیا ہے، بے روزگاری اور مہنگائی نے نوجوانوں میں لاوے کی طرح تناؤ بھر دیا ہے، مسلکی، لسانی اور سیاسی اختلافات بلکہ گہری تفریق نے ہر طرف اپنے پنجے گھاڑ رکھے ہیں ان حالات میں صرف اور صرف اسلام اور پاک فوج ہی وہ ٹھوس امکانات ہیں جو اس قوم کو متحد رکھ سکتے ہیں۔

پاکستان میں فوج اور سیاست کا باہمی تعلق کوئی نیا موضوع نہیں، بلکہ یہ ملکی تاریخ کا ایک طویل باب ہے۔ ابتدا ہی سے سیاسی عدم استحکام نے اداروں کے درمیان توازن کو متاثر کیا ہے۔ تاہم موجودہ دور میں یہ رشتہ ایک نئے موڑ پر پہنچا ہے، جہاں فوج پر براہِ راست اور کھل کر تنقید معمول بن گئی ہے جبکہ فوج کو بھی سیاستدانوں سے ٹھیک ٹھاک شکایات ہیں۔ یہ صورتحال ایک جانب تو شفافیت اور احتساب کے نئے دروازے کھولتی ہے، تو دوسری جانب اداراتی کشمکش کے خطرات بھی پیدا کرتی ہے۔

کسی بھی صحت مند جمہوری معاشرے کی بنیاد اداروں کے درمیان واضح دائرہ کار اور باہمی احترام پر مبنی ہوتی ہے۔فوج کا بنیادی فرض قومی سلامتی اور دفاع ہے، جبکہ حکومت سازی کا عمل عوام کے ووٹ سے ہونا چاہیے۔ جب یہ دائرہ کار مبہم ہو جاتا ہے تو نہ تو جمہوریت پنپتی ہے اور نہ ہی ادارے اپنی بنیادی ذمہ داریاں مؤثر طریقے سے نبھا پاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ادارے آئین میں دیے گئے اپنے روایتی اور قانونی دائرہ کار میں واپس لوٹیں، تاکہ ملک تعمیر و ترقی کے بنیادی مقصد پر توجہ مرکوز کر سکے۔

فوج اور سیاستدانوں کی موجودہ تنقیدی فضا کو اگر تعمیری قومی مکالمے میں تبدیل کیا جائے تو یہ طرح طرح کے بحرانوں سے نکلنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس مکالمے میں تمام سیاسی قوتیں، فوج، سول سوسائٹی، دانشور اور میڈیا شامل ہوں۔ اس بات پر غور کیا جائے کہ کیسے ملک کو سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور مضبوط خارجہ پالیسی جیسے بنیادی مسائل پر یکسو ہوا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں طاقت کا توازن ہو، احتساب ہو، اور عوامی نمائندے ہی عوام کی تقدیر کے فیصلے کرنے کے مجاز ہوں۔

پاکستان کے پائیدار جمہوری مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی عمل کو مکمل طور پر خود مختاری اور شفافیت دی جائے، تاکہ عوام کو یقین ہو کہ ان کا ووٹ ہی حتمی طور پر فیصلہ کن طاقت ہے۔ ساتھ ہی، فوج جیسے اہم ادارے کو تمام تر وسائل کے ساتھ ملکی دفاع کے مقدس فرض کی انجام دہی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جب ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کریں گے تو ہی معیشت کو استحکام ملے گا، بیرونی سرمایہ کاری آئے گی، اور پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکے گا۔ یہ تبدیلی یکدم نہیں آئے گی، لیکن اس سمت میں مستقل کوشش ہی درست طریقہ ہے۔

مجھے یاد ہے چند برس قبل معروف صحافی سلیم صافی نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ "اس وقت پاکستان میں 19 بین الاقوامی خفیہ ایجنسیاں، جن کو میں بائی نیم اور بائی فیس جانتا ہوں، ملک میں اپنے اپنے مذموم عزائم کے لیے سرگرم عمل ہیں”۔ ایسے میں قوم کے ہر فرد کی کوشش اور خواہش ہے کہ پاک فوج مضبوط ترین، مطلوب ترین، محبوب ترین اور ناپسندیدگی کے ہر تاثر سے بلند ترین ہو تاکہ ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کافی حد تک ایسا ہے بھی لیکن کلی طور پر اس حیثیت کے حصول کی ایک قیمت ہے اور وہ یہ کہ فوج اپنے آئینی اور پیشہ ورانہ کردار تک اپنے آپ کو محدود کر دیں، سیاسی اور تجارتی سرگرمیوں اور عزائم سے اپنا سینہ اور دائرہ کار یکسر خالی کر دیں۔

اس حقیقت میں دو رائے قطعاً نہیں کہ ہماری فوج کی سیاست سے دلچسپی کوئی "حادثاتی” معاملہ نہیں بلکہ ایک دیرینہ سلسلہ ہے۔ فوج نے مختلف اوقات میں اقتدار پر قبضہ کیا، طویل حکمرانی کا لطف اٹھایا، سیاسی نظام اور جماعتوں کو کمزور کیا، کسی کو لایا تو کسی کو نکالا، پسند و نا پسند سے اکثر اوقات کام لیا، مالی اور سرکاری مراعات اور مفادات اپنے نام کر دئیے گئے، کچھ ایسی قومی اور عالمی حالات کے حوالے سے پالیسیاں اختیار کئے کہ جن کے نتیجے میں ریاست ویلفئیر سٹیٹ نہیں بلکہ سیکورٹی سٹیٹ بن کر رہ گئی۔

فوج کا پیشہ ورانہ فرائض کے برابر غیر پیشہ ورانہ بلکہ خالص سیاسی اور تجارتی مشاغل توجہات اور دائرہ ہائے کار میں شامل ہوگئے۔ ان نامبارک حال احوال کے دوسری بھی وجوہات ہیں لیکن فوج کا خالص سیاسی اور غیر فوجی مشاغل بھی ایک اہم وجہ ہے۔ سب سے پہلے تو عوام کا یہ حق تسلیم کرنا چاہیے کہ اقتدار میں لانا اور اقتدار سے ہٹانا صرف اور صرف عوام کی صوابدید ہے اس معاملے میں کسی اور کا عمل دخل کسی صورت جائز نہیں۔ چند برس یا عشروں میں اس صوابدیدی حق کو استعمال کرنے کی بدولت انہیں اپنی رائے پر اعتماد بڑھے گا اور کیا بعید کہ وہ وقت بھی دیکھنا نصیب ہو کہ جس میں خالص میرٹ پر ووٹ دینے کا شعور عوام میں آجائے بہر حال انہیں وقت اور موقع دینا ہوگا۔

اب اتے ہیں موجودہ حالات سے برامد ہونے والے دو امکانی نتائج کی جانب۔ ان دونوں میں سے ایک خدشہ ہے اور دوسرا امکان۔ خدشہ یہ ہے کہ خدا نخواستہ ملکی سیاست سے تلخیاں، بد اعتمادیاں اور چفقلشیں اگر نہ نکلی تو صورتحال مزید عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی جس کے نتیجے میں وہ واقعہ رونما ہو سکتا ہے جو پہلے بھی متعدد مرتبہ رونما ہو چکا ہے۔ میرا اشارہ مارشل لاء کی جانب ہے۔ لازمی سی بات ہے اگر سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت اور قبول نہ کرنے میں وہ قدرتی حدود پار کریں گے جن سے آگے سیاسی عمل کے پر جلتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ پاکستان میں ایک ہی نکلتا ہے اور وہ ہے مارشل لاء۔ جس کا عمومی دورانیہ اوسطاً ایک عشرے سے کم نہیں ہوتا۔

دوسرا پہلو حوصلہ افزا ہے حالات میں ایک اچھا امکان یہ موجود ہے جس سے بہت بڑی بہتری جنم لے سکتی ہے یعنی "آزادانہ تنقید اور محاسبہ”۔ اس سے اگر تمام ادارے اپنے فطری دائروں تک محدود ہو جائیں تو بے حد اچھا ہوگا۔ پہلی بار سیاستدانوں کی جانب سے فوج پر براہ راست مداخلت کے حوالے سے مسلسل تنقید ہو رہی ہے۔ اگر مذکورہ بحث کو اب دو طرفہ اور خیر خواہی سے معقول انداز میں اگے بڑھایا جائے اور اس کو ایک قومی ڈایئلاگ کی صورت دی جائے تو اس سے اصلاح احوال کا ایک موثر موقع پیدا ہو سکتا ہے۔ قوموں کے اجتماعی حال احوال میں بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے اس ضرورت کو بہتر انداز میں پوری کرنے کے لیے مخلصانہ اور خیر خواہانہ قومی ڈایئلاگ سے بہتر کوئی وسیلہ نہیں۔

یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ مملکت خدا داد پاکستان میں آغاز سے ہی تمام سیاسی اور ریاستی ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں مطمئن نہیں۔ اس وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور پہلے سے موجود مسائل مزید گمبھیر بھی ہو رہے ہیں۔ موجودہ بحث سے اگر اپنے اپنے دائرہ کار کو مراجعت کا داعیہ پیدا ہو جائے تو یہ نہایت نیک شگون ہوگا۔ یہ حقیقت ہمیں قطعاً نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا اور معاشرے، قدرت نے وسیع تر مصلحت کے پیش نظر مختلف خانوں میں بانٹ لی ہے۔ سماج، معاش، انصاف، انتظام، دفاع اور تحفظ انسان اور معاشروں کے بنیادی ضروریات ہیں اور یہ کہ جو مختلف ادارے اور دائرے وجود میں آئے ہیں ان کی پشت پر طویل عملی تاریخ اور سرد و گرم تجربات کار فرما رہے ہیں۔

بدقسمتی سے وطن عزیز میں سیاستدانوں کی پہچان خدمت، دیانت، بصیرت اور اخلاقی ساکھ نہیں بلکہ کرپشن، خیانت، مفادات اور نااہلی بن چکی ہے ایسے میں نہ انہیں عوامی اعتماد حاصل رہا ہے نہ ہی فوجی اور اس خلا نے بہت زیادہ مسائل کو جنم دے دیا ہے۔ سیاستدانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے کردار، ایمان داری اور اہلیت سے عوام اور فوج دونوں کا اعتماد حاصل کریں تب ہی انہیں وہ طاقت اور اختیار میسر آئے گا جس کے طفیل وہ بڑے فیصلے کرنے اور قومی تعمیر و ترقی میں اپنی خدمات بھرپور طریقے سے جاری رکھ سکیں۔

ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور محفوظ ملک تب ہی بن سکتا ہے جہاں تقسیم کار کے قدرتی اصول کامل یکسوئی سے روبہ عمل نہ صرف آئیں بلکہ ہر طبقے اور دائرے کے لیے قابلِ قبول بھی ہو۔ فوج سے قوم کو صرف اور صرف ایک ہی توقع ہے اور وہ ہے ملکی جغرافیائی سرحدات کی حفاظت اور قومی سلامتی میں تفویض کردہ کردار نبھانے کو یقینی بنانا۔ کون اقتدار میں آتا ہے یا کون اقتدار سے جاتا ہے اس معاملے سے فوج کو مکمل طور پر لا تعلق رہنی چاہیے۔ فوج کا کام ہے کہ وہ منتخب حکومت سے صحت مند ریلیشن شپ قائم رکھے اور بس۔

اس وقت دنیا ترقیاتی اعتبار سے تین بڑے حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک ترقی یافتہ حصہ، دوم ترقی پزیر حصہ اور سوم پسماندہ (یعنی ترقی سے محروم) حصہ۔ ترقی یافتہ ممالک میں تقسیم کار کے اصول سختی سے رائج ہیں یعنی فوج کا سیاسی عمل میں عمل دخل نہیں وہاں حدود و قیود سے تجاوز کا چلن بھی نہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں ایک کشمکش کی فضا ہے، کوئی ادارہ یا شخصیت اپنے فطری دائرہ کار میں خوش اور آسودہ دکھائی نہیں دے رہا جبکہ پسماندہ دنیا میں تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ وہاں صرف ایک ہی تقسیم موجود ہے یعنی طاقت اور کمزوری، دولت اور غربت۔ وہاں ہر طرف تباہی کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ وہاں عوام کو ترقی اور خوشحالی کی حرارت اور حلاوت کا مزہ چکھنے میں ابھی ایک لمبا عرصہ لگے گا۔

دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں من حیث القوم توفیق دے کہ ہم سب مل کر پاکستان کو ایک مضبوط، محفوظ، مستحکم، خوشحال، پرامن، ترقی یافتہ، مہذب اور اسلامی و فلاحی مملکت بنا کر دنیا کو دکھا دیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے