جب ٹیلی وژن کیمروں کے سامنے غزہ میں ہوتا ہوا قتلِ عام دنیا کو نہ جھنجھوڑ سکا، اور جب افریقہ کے جمہوریۂ کانگو میں برسوں سے جاری تباہی اب تک کسی عالمی فورم پر مرکزی حیثیت نہ پا سکی، تو پھر سوڈان کے شہر الفاشر میں ہونے والے حالیہ قتلِ عام پر کون کان دھرے گا؟
اور میں سوچتی ہوں — اگر غزہ میں دکھائی دینے والی نسل کُشی دنیا کو روک نہیں سکی، اگر کانگو کے سائے میں مرنے والے انسان ابھی بھی محض اعداد و شمار ہیں، تو پھر میری اپنی برادری — وہ لوگ جو سابق مشرقی پاکستان میں پاکستانیت کی قیمت اپنے خون سے ادا کر چکے — ان کا کیا مقام ہے؟
آج جب پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بحال کرنے جا رہا ہے، تو ان بے وطن محبِ وطنوں کا کوئی ذکر نہیں، جو سب کچھ قربان کر کے اب تاریخ کے حاشیے پر رہ گئے ہیں۔
—
الفاشر: ایک شہر، ایک علامت
الفاشر شمالی دارفور کا دارالحکومت ہے — وہ خطہ جو سوڈان کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ہے۔ کبھی یہ قافلوں اور تجارت کا مرکز تھا، اب یہ انسانی المیے اور نسل کُشی کی علامت بن چکا ہے۔
یہ وہ آخری بڑا شہر تھا جو ابھی تک سوڈانی فوج کے کنٹرول میں تھا، مگر اکتوبر 2025 میں ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے اس پر قبضہ کر لیا۔
الفاشر کی جغرافیائی اور معاشی اہمیت بہت بڑی ہے:
یہ شہر شمالی دارفور کے پانی، زرعی زمینوں اور معدنی وسائل پر کنٹرول کا دروازہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایف اور ایس اے ایف دونوں کے لیے یہ اسٹریٹجک فتح کی علامت ہے — اور اسی قبضے کی جنگ نے شہریوں کو سب سے بڑی قیمت چکانے پر مجبور کر دیا۔
—
ظلم اور نسل کُشی کی تفصیل
الفاشر میں جو کچھ ہوا، وہ کسی ایک لمحے کا حادثہ نہیں، بلکہ نسلی امتیاز، فوجی حرص اور سیاسی اقتدار کے امتزاج سے جنم لینے والی تباہی ہے۔
نسلی نشانہ بنانا
آر ایس ایف پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر عرب مسلم اقلیتوں، خصوصاً زغاوہ قوم کے خلاف مخصوص، منظم حملے کیے۔
عینی شاہدین کے مطابق شہریوں کو شناخت اور لہجے سے الگ کیا گیا، گھروں میں چھاپے مار کر چُن چُن کر قتل کیا گیا۔
اجتماعی قتل
اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر جانب دار مبصرین نے تصدیق کی ہے کہ اکتوبر کے آخر میں شہر کے سقوط کے چند گھنٹوں میں تقریباً دو ہزار شہری قتل کر دیے گئے۔
اقوامِ متحدہ کے دفترِ انسانی حقوق کے مطابق، ویڈیوز میں “درجنوں نہتے مرد” گولیوں سے چھلنی نظر آئے — اردگرد آر ایس ایف کے جنگجو موجود تھے۔
عبادت گاہوں اور اسپتالوں پر حملے
ستمبر 2025 میں الجامع مسجد پر میزائل داغا گیا، جس میں تقریباً 75 نمازی شہید ہوئے۔
اسی طرح سعودی میٹرنٹی اسپتال اور دیگر طبی مراکز پر بھی حملے ہوئے۔ ان حملوں میں عورتیں، نوزائیدہ بچے اور عملہ مارا گیا۔
جنسی تشدد
اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، آر ایس ایف کے اہلکاروں نے خواتین اور بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔
پناہ گزینوں کے مراکز میں بندوق کی نوک پر زیادتی کے واقعات کی تصدیق ہوئی۔
جبراً قبریں کھدوائی گئیں
(“زندہ دفنانے” کے دعوے بعض گواہیوں اور مقامی تنظیموں نے کیے ہیں، مگر عالمی سطح پر جزوی طور پر تصدیق شدہ ہیں — اس لیے احتیاطی حوالہ ضروری ہے۔)
بین الاقوامی انسانی حقوق تنظیموں، نیوز ایجنسیوں اور سوڈان ڈاکٹرز یونین کی رپورٹس کے مطابق آر ایس ایف کے جنگجوؤں نے متاثرین کو اپنی قبریں خود کھودنے اور زندہ دفن ہونے پر مجبور کیا۔
سوڈان ڈاکٹرز یونین نے کہا:
> “آر ایس ایف نے شہر کے قبضے کے بعد چند گھنٹوں میں تقریباً 2,000 شہریوں کو ہلاک کیا، جن میں گھر گھر چھاپے، اجتماعی زیادتیاں، اور متاثرین کو قبر کھدوانے پر مجبور کرنا شامل تھا۔”
ییل یونیورسٹی کی ہیومینیٹیرین ریسرچ لیب نے بھی سیٹلائٹ تصاویر میں لاشوں کے ڈھیر اور زمینی نشانات کی تصدیق کی — جو اجتماعی قتل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اگرچہ “زندہ دفنانے” کی مکمل عالمی تصدیق ابھی جاری ہے، لیکن شواہد خوفناک حد تک یکساں ہیں۔
—
کون نفع اٹھا رہا ہے؟ کون مالی امداد کر رہا ہے؟
یہ المیہ صرف نسلی نفرت کا نتیجہ نہیں — اس کے پیچھے طاقت، دولت اور وسائل کی جنگ ہے۔
اقتدار کی لڑائی: آر ایس ایف اور ایس اے ایف کے درمیان سیاسی بالادستی کی جنگ میں الفاشر فیصلہ کن مقام ہے۔
معدنی مفادات: دارفور کے علاقے میں سونا، تیل اور دیگر معدنیات آر ایس ایف کے مالی ذرائع ہیں۔ آر ایس ایف کے سربراہ محمد حمدان دگالو (حمیدتی) کی کمپنی “الجنید” سونا برآمد کرتی رہی ہے، جو اُن کی جنگی مشین کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔
بیرونی امداد: متحدہ عرب امارات پر الزامات ہیں کہ وہ آر ایس ایف کو مالی اور عسکری سپورٹ فراہم کر رہا ہے، جب کہ روس کی واگنر گروپ نے ماضی میں انہیں تربیت دی۔
سیاسی مفادات: مختلف عالمی اور خطے کی طاقتیں — مصر، ایتھوپیا، یو اے ای اور روس — سوڈان کے مستقبل میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہیں۔ دارفور ان سب کے لیے ایک پاور ویکیوم ہے۔
—
انسانی بحران
الفاشر کے سقوط کے بعد 60,000 سے زائد افراد شہر سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔
بچوں کے چہرے بھوک، عورتوں کی آنکھیں خوف، اور مردوں کے ہاتھ خالی — یہ سب مل کر اُس انسانی المیے کا منظر پیش کر رہے ہیں جو کسی بھی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دینا چاہیے۔
مگر کیا جھنجھوڑتا ہے؟
غزہ سے لے کر کانگو اور الفاشر تک — ہم صرف دیکھتے ہیں، بولتے نہیں۔
—
ہمارے اپنے زخم
میں اس خاتون کی حیثیت سے لکھ رہی ہوں جو اُن لوگوں کی اولاد ہے جنہیں پاکستان کے نام پر مشرقی پاکستان میں قربانی دینی پڑی۔
ہماری نسل کُشی نہ تو کسی عالمی ریکارڈ میں موجود ہے، نہ کسی نصاب میں۔
اور آج جب پاکستان اور بنگلہ دیش “تعلقاتِ بحالی” کی بات کرتے ہیں، تو اُن بے وطن محبِ وطنوں کی یاد کیوں غائب ہے؟
کیا قومی مفاہمت اُن کے بغیر ممکن ہے جنہوں نے وفاداری کی سب سے بڑی قیمت ادا کی؟
—
سوال اور ضمیر
اگر غزہ کا قتلِ عام ٹی وی اسکرین پر براہِ راست دیکھنے کے باوجود نہ رک سکا،
اگر دارفور کی عورتیں چیخ چیخ کر بھی سنی نہیں جا رہیں،
اگر کانگو کے بچے جنگلوں میں بھوکے مر رہے ہیں،
تو ہم کس دنیا میں زندہ ہیں؟
اور اگر ہماری اپنی نسل کُشی — وہ جو کبھی ڈھاکا، چٹاگانگ اور کھلنا میں ہمارے نام پر ہوئی — اب بھی تسلیم نہیں کی جاتی،
تو پھر الفاشر، غزہ، کانگو — یہ سب ایک ہی کہانی کے مختلف باب ہیں:
طاقت کی، بے حسی کی، اور اس دنیا کے دوہرے معیار کی۔
—
اختتامیہ
الفاشر صرف ایک شہر نہیں، ایک آئینہ ہے —
جس میں ہم اپنی بے بسی اور بے حسی کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔
یہ تحریر نہ صرف سوڈان کے مظلوموں کے لیے ہے بلکہ ان تمام بے نام لوگوں کے لیے ہے
جن کی وفاداریاں، شناختیں اور زندگیاں سیاست کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
شاید اب وقت ہے کہ ہم صرف تعزیت نہ کریں
بلکہ اس خاموشی کے شریکِ جرم ہونے سے انکار کریں۔
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا