انسانی معاشرہ ہمیشہ تبدیلی اور ارتقا کے عمل سے گزرتا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف ہماری طرز زندگی بلکہ ہمارے رجحانات، اخلاقیات اور اقدار بھی بدلتی رہتی ہیں۔
ماضی کے طلسماتی دھندلکوں اور حال کی تیز رفتار ڈیجیٹل دنیا کے درمیان اقدار کا یہ سفر کس سمت جا رہا ہے؟ کیا ہم ترقی کی دوڑ میں اپنی اخلاقی جڑیں کھو رہے ہیں، یا پھر ہم ایک بہتر اخلاقی مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ آئیے ماضی اور حال کا ایک طائرانہ سا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش بھی کرتے کہ انسان کے لیے مناسب طرزِ عمل اختیار کرنے میں ماضی اور حال اہمیت کیا ہے ؟
ماضی کی خوبیاں
ماضی کے معاشروں کی سب سے بڑی خوبی ان کا اجتماعی شعور اور باہمی تعلق کا مضبوط ہونا تھا۔ خاندان نہ صرف ایک سماجی اکائی تھا بلکہ اجتماعی اقدار کی پائیدار عمارت بھی تھی۔ بزرگوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت کا سلوک، پڑوسیوں کے حقوق اور رشتوں کی پاسداری ان معاشروں کا امتیاز تھی۔
اس طرح صبر، قناعت اور استقامت جیسے اوصاف کو قابلِ قدر سمجھا جاتا تھا۔ زندگی کے معاملات میں سچائی اور گہرائی ہوتی تھی۔ دوستی کا رشتہ محض سوشل میڈیا کی "فرینڈشپ” تک محدود نہ تھا، بلکہ یہ دلوں کا ایسا تعلق ہوتا تھا جو مشکل وقت میں ٹھیک ٹھاک کام آتا تھا۔ کام کی جگہ پر دیانت اور اپنے کام میں مہارت کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
ماضی کی خامیاں
تاہم، ماضی کا دور خامیوں سے پاک نہ تھا۔ معاشرے میں اکثر لچک کا فقدان پایا جاتا تھا۔ سماجی دباؤ بہت زیادہ ہوتا تھا اور فرد کی انفرادی آزادی کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ خاص طور پر خواتین کے حوالے سے روایات بہت سخت تھیں اور ان کے حقوق کافی محدود تھے۔ تعلیم تک رسائی چند مخصوص طبقوں تک ہی مرتکز تھی۔ ثقافتی اور سماجی روایت پسندی کبھی کبھار ترقی کے راستے میں اچھی خاصی رکاوٹ بن جاتی تھی۔
حال کی خوبیاں
موجودہ دور کی سب سے بڑی خوبی فرد کی آزادی اور خود مختاری ہے۔ انسان نے اپنی ذات، اپنے فیصلوں اور اپنی منزل متعین کرنے کا اختیار حاصل کیا ہے۔ اس طرح خواتین نے ہر شعبہ زندگی میں اپنا لوہا منوایا ہے اور ان کے حقوق کے حوالے سے آگاہی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم اور معلومات تک رسائی آسان ہوئی ہے، جس نے علم کے دروازے غریب اور امیر سب کے لیے کھول دیے ہیں۔ مجموعی طور پر زندگی میں آسانی اور سہولت آگئی ہے۔
اس طرح جدید ٹیکنالوجیز نے رابطوں کے نئے زاویے متعارف کرائے ہیں۔ دنیا اب ایک "گلوبل ولیج” بن چکی ہے۔ ہماری سوچ کا دائرہ وسیع ہوا ہے اور ہم مختلف ثقافتوں اور نظریات کو برداشت کرنا سیکھ رہے ہیں۔ اس دور میں تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ ملا ہے اور نوجوان نئے نئے کاروبار، امکانات اور طرزِ ہائے زندگی ایجاد کر رہے ہیں۔
حال کی خامیاں
موجودہ دور کی سب سے بڑی خامی مادیت پرستی، خود غرضی اور انفرادیت کا غلبہ ہے۔ ہماری کامیابی کا پیمانہ زیادہ تر دولت، شہرت اور ظاہری نمود و نمائش بن گیا ہے۔ تعلقات کی گہرائی ختم ہو رہی ہے۔ مخلصانہ دوستی کی جگہ "نیٹ ورکنگ” نے لے لی ہے اور اب خاندانی رشتے اور سماجی تعلقات ایک چھوٹے سے موبائل اسکرین تک سمٹ کر رہ گئے ہیں۔
اس طرح صبر، برداشت اور تحمل جیسے اوصاف دم توڑ رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹینشن ہونا اور غصہ آنا معمول بن گیا ہے، بے صبری ایسی کہ ہر چیز لوگوں کو فوری چاہیے۔ نتیجتاً، ذہنی دباؤ، بیزاری اور ڈپریشن جیسے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اخلاقیات کا معیار ڈگمگایا گیا ہے۔ سیاست، کاروبار، حتیٰ کہ روزمرہ زندگی میں بے ایمانی اور مفاد پرستی کو بعض اوقات "ذہانت” سمجھ لیا جاتا ہے۔
عمومی جائزہ
یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ترقی کا سفر یہی پہنچ کر ختم نہیں ہو جاتا۔ مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کا موجودہ دور ہمارے سامنے ایسے ایسے اخلاقی سوالات لا کھڑا کرے گا جن کا سامنا انسانیت نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ ایسے میں، اگر ہم نے اپنے اجتماعی ضمیر کو مضبوط نہ کیا تو ترقی کا یہ نیا دور ہمارے لیے نعمت کی بجائے زحمت بن سکتا ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو تیار کرنا ہوگا کہ وہ نہ صرف جدید ترین ٹیکنالوجی کو برتنے میں ماہر ہو، بلکہ اس بات کا بھی پاس و لحاظ رکھے کہ انسانیت کی بنیادی قدریں انصاف، رحم دلی اور سچائی ہی ہیں۔
اس تاریخی موڑ پر نوجوان نسل کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، کیونکہ وہ ماضی کی روایات اور حال کی جدت دونوں سے براہ راست متاثر ہیں۔ انہیں دونوں دنیاؤں کے بہترین پہلوؤں کو سمجھنے اور آگے بڑھانے کا کام سر انجام دینا ہے۔ انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ سوشل میڈیا کے لائکس کی دوڑ میں اپنی حقیقی پہچان نہ بھولیں، اور یہ کہ ان کی پروفائل تصویر ان کی اصل شخصیت سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ ان کے پاس وہ موقع ہے کہ وہ ڈیجیٹل ذہانت کو اپناتے ہوئے بھی انسانی ہمدردی کے جذبے کو زندہ رکھیں، اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نہ صرف اپنی ذاتی کامیابی کے لیے، بلکہ معاشرے کے مجموعی فلاح و بہبود کے لیے بھی استعمال کریں۔
یہ کام کسی ایک فرد، خاندان یا ادارے کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک اجتماعی کوشش ہے جس میں حکومت، تعلیمی اداروں، مذہبی رہنماﺅں، میڈیا اور ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تعلیمی نصاب میں اخلاقیات کو وہی اہمیت دی جانی چاہیے جو سائنس اور کمپیوٹر کو دی جاتی ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ نمود و نمائش کی ثقافت کو فروغ دینے کے بجائے انسانی ہمدردی، دیانتداری، خلوص اور بصیرت سے جڑی کہانیاں عام کرے۔ ہر فرد کو اپنے گھر سے آغاز کرتے ہوئے رشتوں کی قدر و قیمت کو زندہ رکھنا ہوگا۔ یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات ہی مل کر اس عظیم ہدف کی تکمیل کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔
توازن ہی اصل کامیابی ہے
اصل سوال یہ نہیں کہ ماضی بہتر تھا یا حال؟ دونوں ادوار خوبیوں اور خامیوں کے حامل ہیں۔ ماضی سے ہمیں تعلقات کی مضبوطی، اخلاقیات کی پائیداری اور صبر و استقامت کا سبق ملتا ہے۔ حال سے ہمیں فرد کی آزادی، مساوات اور ترقی کے نت نئے مواقع ملے ہیں۔
حقیقی کامیابی اس بات میں ہے کہ ہم دونوں زمانوں کی خوبیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کریں۔ ہم ترقی کی دوڑ میں اپنی اخلاقی اقدار کو قربان نہ کریں۔ ہم جدید ٹیکنالوجی کو اپنا غلام بنائیں، آقا نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو مادی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ انسانیت، ہمدردی، خلوص اور دیانت داری کا بھی درس دیں۔
ماضی کو مکمل طور پر ترک کرنا اپنی جڑوں سے کٹنے کے مترادف ہے، اور حال سے منہ موڑنا وقت کے تقاضوں سے فرار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے ماضی کے اسباق کو سامنے رکھتے ہوئے حال کے چیلنجز کا مقابلہ کریں اور ایک متوازن، روشن اور انسانی اقدار سے آراستہ و پیراستہ مستقبل کی تعمیر کریں۔ کیونکہ ترقی کا اصل مقصد صرف چمکتی دمکتی عمارتیں کھڑی کرنا نہیں، بلکہ بہتر انسان تخلیق کرنا ہے۔