پروفیسر صفدر علی خان انشاء سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی۔میں نے پہلے ان کو فون کیا تھا اور کہا تھا کہ میں کراچی آپ سے ملنے کے لیے آنا چاہتا ہوں۔انھوں نے ہمیشہ کی طرح ویلکم کیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئ کیوں کہ آج کل وہ افرا تفری کا عالم ہے کہ بغیر مطلب کے کوئی کسی سے ملنے کو تیار نہیں ہے۔
مجھے صفدر صاحب سے ایک کام تھا اور اس سلسلے میں مجھے ان کے مشورے کی ضرورت تھی۔ میں دوسرے دن صبح ان کے گھر پہنچ گیا اس سے پہلے میرا ان کے گھر پر تقریباً پانچ سال پہلے جانا ہواتھا۔اس وقت اس علاقے کی آبادی بہت کم تھی مگر اب ہر طرف مکان ہی مکان نظر آتے ہیں اور لوگوں کا ہجوم دکھائ دیتا ہے۔
میں نے سوسائیٹی پہنچ کر انھیں کال کی اور وہ مجھے سوسائیٹی کے گیٹ پر لینے کے لیے آگئے۔انھوں نے ناشتے کا اہتمام کیا اور پھر ہم ان کے پوتے کو لینے قریب ہی ایک بڑے اسکول میں پہنچے ۔وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے اس سے پہلے میں جب ان کے گھر پر گیا تھا تو صفدر صاحب عام آدمی ہی تھے دادا نہیں بنے تھے مگر اب وہ دو عدد پوتوں کے دادا چکے ہیں ان کا بڑا پوتا ذرا شرمیلا تھا جسے ہم اسکول سے لینے کے لیے گیے تھے جب کہ دوسرا پوتا جو ابھی گھر ہی میں رہتا ہے بڑا ہنس مکھ اور شریر تھا شاید اسی لیے بھی کہ اس نے ابھی دنیا نہیں دیکھی ہے۔
صفدر صاحب سے ادبی اور غیر ادبی گفتگو ہوتی رہی۔وہ اردو کے پروفیسر ہیں چند سال پہلے ریٹائر ہوئے ہیں۔حیدرآباد سندھ سے تعلق ہے مگر اب ایک مدت سے کراچی میں رہائش پزیر ہیں۔مزاحیہ شاعر ہیں ۔کراچی کی ادبی محفلوں میں شرکت کرتے رہتے ہیں سہ ماہی انشاء کے مدیر ہیں اور ان کا ایک شعری مجموعہ ٫آ بیل مجھے مار٬ کے نام سےمنظر عام پر آچکا ہے اور داد پا چکا ہے۔کالم کے آخر میں ان کے اشعار بھی آپ پڑھ سکیں گے۔
صفدر صاحب سے میرا تعلق کافی پرانا ہے۔ غالبا ًحیدرآباد میں پاسبان اخبار کے دفتر میں ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی جب میں ایک ادبی رپورٹ لے کر پاسبان اخبار کے ادبی صفحے کے انچارج عزیز احمد وارثی صاحب کے پاس گیا تھا اس کے بعد سے صفدر صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا وہ جب بھی حیدرآباد آتے تو مجھے کال کرتے اور گھر پر ضرور آتے اور انشاء کا تحفہ بھی مل جاتا۔ میں تھوڑی دیر کے لیے آپ کو پھر ماضی میں لے جاتا ہوں آج سے تقریباً دس بارہ سال پہلے میں کراچی گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گیا تو صفدر صاحب سے فون پر بات ہوئ اور پھر ان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر چلا گیا ان دنوں وہ بفرزون میں رہا کرتے تھے وہ خوش دلی سے ملے ان سے ادب پر باتیں ہوئیں پھر میں نے اجازت چاہی تو کہنے لگے کہ کھانا تیار ہے میرے وہم و گمان میں بھی کھانے کا نہیں تھا کیوں کہ ناشتہ تو ہم کرچکے تھے آج سے دس بارہ سال پہلے ان سے اتنی دوستی بھی نہیں تھی پھر وہ سینئیر بھی تھے انشاء کے مدیر بھی تھے خیر انھوں نے لزیذ کھانا کھلا کر مجھے بھیجا اور چند دن پہلے بھی ان کا یہی سلوک رہا۔ بات کھانے کی نہیں ہے بات اس محبت کی ہے جو کھلانے والے کے خلوص میں شامل ہوتی ہے۔پوتے کو اسکول سے واپس لانے کے بعد میں اور صفدر صاحب ملیر جانے کےلیے نکلے اور انھوں نے اپنی بائیک نکالی دراصل کار ان کے بیٹے لے کر گئے ہوئے تھے۔میں صفدر صاحب کی طبیعت سے واقف ہوں اسی لیے میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے کہا کہ سر پیٹرول ڈلوالیں گے فاصلہ کافی ہے۔
انھوں نے کہا بالکل پھر جب ہم پیٹرول پمپ پر پہنچے تو میں نے بٹوا نکالا مگر صفدر صاحب نے کہا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے اور میں خاموش ہوگیا پھر ملیر میں ہم نے مرزا عاصی اختر صاحب کی بھی عیادت کی اور پھر واپسی میں صفدر صاحب نے دوپہر کا کھانا کھلا کر بھیجا اور حیدرآبادجانے کے لیے بس اسٹنیڈ الآصف پر مجھے ڈراپ بھی کیا۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اللہ نے ایک خاص مقام عطا کیا ہے اور صفدر علی خاں انشاء بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں میں نے بھی دنیا دیکھی ہے لوگوں کے رویے میں دو منٹ میں پہچان لیتا ہوں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی کچھ حیثیت نہیں ہوتی مگر وہ خود کو نجانے کیا سمجھتے ہیں۔صفدر صاحب جیسے لوگوں کو مادی چیزوں کی پرواہ نہیں ہے وہ تو بس چاہتے ہیں کہ مہمان کے ساتھ بہترین سلوک کیا جائے ورنہ یہاں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو بغیر کسی مطلب کے کسی کو پوچھتے ہی نہیں ہیں ان کی نظر میں وہ سپیریئر ہیں اور باقی لوگ جونئیر۔ صفدر صاحب ان سب سے الگ ہیں اسی لیے ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک اطمینان نظر آتا ہے۔ اس مرتبہ بھی انھوں نے انشاء کی تازہ کاپی میرے حوالے کی انشاء کے حوالے سے ہی ان کا کام اتنا بڑا ہے کہ انھیں ادبی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھا جائیے گا کالم کے آخر میں وعدے کے مطابق محترم جناب صفدر علی خان انشاء کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
” تم نہ مانو مگر حقیقت ہے”
مال انسان کی ضرورت ہے
مینا بازار جاکر دیکھو تو
” زندگی کتنی خوبصورت ہے ”
ان کے رخ پر نقاب ہوتا ہے
دل ہمارا کباب ہوتا ہے
کیسےاس زلف کو گھٹا کہ دوں
جس میں اکثر خضاب ہوتا ہے
مجھ کو اتنے بل ملے میں بلبلا کر رہ گیا
اور جب ان کو پڑھا تو تلملا کر رہ گیا
میں اسے کیسے سناتا دل کی ویرانی کا حال
اس کی اماں ساتھ تھی بس کسمسا کر رہ گیا
اس نے فرط ناز سے ایسی چپت ماری مجھے
ایک منظر روشنی کا جھلملا کر رہ گیا
وہ حجامت کرتے کرتے بن گیا لیڈر تو پھر
اصل میں لیڈر تھا جو گدی گھما کر رہ گیا
سیٹیوں پر سیٹیاں ماریں تو وہ کھڑکی کھلی
جھانکا باپ اس کا تو انشا سٹپٹا کر رہ گیا