جس طرح کہاوت ہے کہ "وقت کی رفتار کبھی رکتا نہیں” بالکل اسی طرح سردیوں کا آغاز ہوتے ہی نومبر کی دھند نے پاکستان کے شہروں کی فضاؤں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ مہینہ اپنے اندر خوشگوار سردی، نرم ہوا اور سنہرے دنوں کا امتزاج لیے ہوئے ہے۔ نومبر کی صبحیں اور شامیں اپنے حسین رنگ اور طلوع و غروب کے طلسمی مناظر سے دل کو خوش کر دیتی ہیں، مگر اس کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہ شہری زندگی کے لیے کئی چیلنجز بھی لے کر آتا ہے۔ شمالی علاقوں سے لے کر جنوبی بندرگاہوں تک، نومبر کی ہوا میں تازگی کے ساتھ سردی کی لہر شامل ہوتی ہے جو جسم اور ذہن دونوں پر اثر ڈالتی ہے۔ دن مختصر اور راتیں لمبی ہو جاتی ہیں، سورج کی روشنی نرم اور ہلکی سی دھند میں بدل جاتی ہے اور ہر طرف سکون و سکوت کا عالم چھا جاتا ہے۔ فصلوں کی کٹائی کے بعد پیدا ہونے والا قدرتی ماحول، کھیتوں کی خوشبو اور درختوں کی نرم ہریالی اس موسم کو یادگار بنا دیتی ہے۔ اس مہینے کی فضا انسان کے خیالات کو تازگی بخشتی ہے اور قدرت کے حسن کو اجاگر کرتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس ہوا میں کچھ مخفی مسائل بھی چھپے ہوتے ہیں جو نوح با نوح انسانوں کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔
نومبر کے آغاز سے ہی پورے ملک کے شہری مراکز میں فضائی معیار میں کمی محسوس کی جاتی ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور آزاد کشمیر کے بڑے شہر اس اثر سے مستثنیٰ نہیں۔ شمالی علاقوں میں سردی کے ساتھ پہاڑوں سے اُٹھتی دھند شہری علاقوں تک پہنچتی ہے اور مقامی آبادی کی روزمرہ سرگرمیاں محدود ہو جاتی ہیں۔ بڑے شہروں میں کارخانوں اور گھریلو ایندھن کے بڑھتے ہوئے استعمال سے فضا مزید آلودہ ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب اور سندھ کے صنعتی علاقے، جیسے حیدرآباد، سکھر اور ملتان، کوئلہ اور دیگر ایندھن سے نکلنے والے دھوئیں کے بوجھ سے پریشان نظر آتے ہیں۔ شہریوں کے لیے صبح کی سیر یا شام کی چہل قدمی خطرناک ہو جاتی ہے کیونکہ فضا میں موجود ذرات سانس کے نظام پر برا اثر ڈال سکتے ہیں۔
سموگ کے بڑھتے ہوئے اثرات میں ٹرانسپورٹ بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پرانی بسیں، رکشے، ویگنیں، چنگ چی اور موٹرسائیکلیں فضاؤں میں زہریلا دھواں چھوڑ کر سموگ میں اضافہ کرتی ہیں۔ شہری اکثر اس مسئلے پر ردِعمل دینے کے بجائے بے احتیاطی سے صورتحال کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو بھی کوڑے کے ڈھیر ختم کرنے کے لیے اکثر آگ لگانی پڑتی ہے، جس سے فضا میں مزید زہریلا دھواں شامل ہو جاتا ہے۔ غیر قانونی کارخانوں میں ٹائروں اور پلاسٹک کو بطور ایندھن استعمال کرنا سموگ کی شدت کو بڑھاتا ہے۔ فصلوں سے بچ جانے والا کچرا جلایا جاتا ہے جس کا دھواں پنجاب سے نکل کر سندھ کے بعض علاقوں تک پہنچ جاتا ہے۔ بھارت سے آنے والی سموگ نے بھی ملک کے شمالی اور وسطی حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں بھی سموگ کا اثر نمایاں ہے خاص طور پر پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں جہاں فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں۔ روزانہ ہزاروں ٹن شاخیں اور جڑیں جلنے سے اٹھنے والا دھواں شہری فضاؤں میں شامل ہوتا ہے۔ مغربی سمت سے چلنے والی ہوائیں یہ دھواں لاہور، فیصل آباد اور ملتان تک لے جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس موسم میں ایئر کوالٹی انڈیکس خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں شہریوں کی صحت براہِ راست متاثر ہوتی ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں کے مابین یہ فضائی رابطہ سموگ کو ملک گیر مسئلہ بنا دیتا ہے۔
مزید برآں، سموگ دراصل فضائی آلودگی اور دھند کا مرکب ہے۔ لندن کی طرح پاکستان میں بھی شہری زندگی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ کوئلے کے استعمال سے کارخانوں، فیکٹریوں اور گھروں میں دھوئیں کے بادل اٹھتے ہیں جو ماحول اور انسانی صحت دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے دھوئیں میں شامل کیمیائی مادے جیسے نائٹروجن آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور سلفر آکسائیڈ فضا میں خطرناک ذرات پیدا کرتے ہیں۔ لاہور، کراچی، راولپنڈی، حیدرآباد اور کوئٹہ میں یہ مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ سردیوں میں جب کوئلے اور ایندھن کی کھپت بڑھتی ہے، تب سموگ اپنی پوری شدت کے ساتھ چھا جاتی ہے اور اسکول، کالج، ایئرپورٹ اور سڑکیں بند ہونے لگتی ہیں۔
ٹریفک جام اور شہری رش بھی سموگ کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ بڑے شہروں میں مختصر سفر کے لیے بھی گھنٹوں لگ جاتے ہیں، جس سے ایندھن کا ضیاع اور آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹ سے نکلنے والے دھوئیں میں موجود کیمیائی اجزاء سورج کی روشنی، نمی اور حرارت کے ساتھ ردِعمل کرکے خطرناک ذرات پیدا کرتے ہیں۔
اسی طرح انسانی صحت پر سموگ کے اثرات تشویشناک ہیں۔ برونکائٹس، دمہ، دل کے امراض اور سانس کی بیماریوں کے مریض شدید متاثر ہوتے ہیں۔ بچوں میں سموگ کا اثر مستقبل میں پھیپھڑوں کی بیماریوں کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔ حاملہ خواتین پر بھی اس کا اثر شدید ہوتا ہے، جس سے بچوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے اور وزن کم پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ سموگ سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے نہیں دیتی، جس سے وٹامن ڈی کی کمی اور ہڈیوں کی کمزوری پیدا ہوتی ہے۔
سموگ کی وجہ سے سفر کے دوران بھی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ حدِ نگاہ کم ہونے سے سڑکوں اور موٹرویز پر حادثات کا خطرہ رہتا ہے۔ ہوائی اور ریلوے سفر متاثر ہوتا ہے اور بجلی کے پلانٹس کی کارکردگی پر بھی برا اثر پڑتا ہے، جس سے توانائی کا بحران جنم لیتا ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور جیسے بڑے شہروں میں یہ مسائل ہر سال سامنے آتے ہیں۔ شہری زندگی کے ہر پہلو پر اس کی لپیٹ واضح ہے اور یہ سماجی و اقتصادی ترقی کو متاثر کرتی ہے۔
اگر نظر دوڑائی جائے تو دنیا بھر میں سموگ کے مسئلے سے نمٹا جا رہا ہے اور ہمارے ملک میں بھی کچھ اقدامات جاری ہیں۔ الیکٹرک گاڑیاں، ہائبرڈ ویہیکلز اور جدید ویکیوم ایرکلینرز فضائی آلودگی کم کرنے میں مددگار ہیں۔ پنجاب میں فوگ کینن آپریشن، مصنوعی بارش اور پانی کے چھڑکاؤ سے سموگ کے اثرات کم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ لاہور، راولپنڈی اور فیصل آباد میں یہ اقدامات محدود سطح پر کامیابی حاصل کر رہے ہیں، لیکن ملک گیر حل کی ضرورت ابھی باقی ہے۔
ماہرین کے مطابق چند احتیاطی تدابیر شہریوں کو وقتی تحفظ فراہم کر سکتی ہیں۔ ماسک، چشمہ، ٹوپی، ہیلمٹ اور پانی کی مناسب مقدار سموگ کے نقصانات کو کم کر سکتے ہیں۔ شہریوں کو چاہیے کہ وہ سفر کے دوران احتیاطی اقدامات کریں، آنکھوں اور ناک کو صاف رکھیں، اور زیادہ ٹھنڈے مشروبات سے پرہیز کریں۔ اس کے ساتھ سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مستقل منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
سموگ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر موسمِ سرما میں نمودار ہوتا ہے۔ اس کے اثرات کو کم کرنے اور انسانی صحت کو محفوظ بنانے کے لیے مربوط حکمتِ عملی اور عوامی شعور کی اشد ضرورت ہے۔ ہر شہر، گلی، فیکٹری اور شہری کے تعاون سے ہی اس بلی کو قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ مستقبل کی نسلوں کے لیے صاف اور صحت مند فضائیں یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات لازمی ہیں۔