اگر آپ چاہتے کہ آپ کی زندگی میں کبھی قرار نہ رہے،
اگر آپ چاہتے کہ ہر دن کسی نئے اضطراب کے ساتھ شروع ہو اور کسی ان دیکھے خوف پر ختم ہو،اگر آپ چاہتے کہ صبح اٹھتے ہی دل پر ایک بوجھ سا ہو جس کی وجہ آپ کو خود بھی معلوم نہ ہو،اگر آپ چاہتے کہ ہر خوشی کے لمحے میں کوئی بے نام سی گھٹن موجود رہے۔
اگر آپ چاہتے کہ آپ کا چہرہ آئینے میں خود آپ کو اجنبی لگے،
اگر آپ چاہتے کہ معمولی باتوں پر آپ کی آواز اونچی ہونے لگے،
اگر آپ چاہتے کہ آپ کے اردگرد کے لوگ آپ سے بچ کر رہنے لگیں،
اگر آپ چاہتے کہ آپ کے اندر ایک ایسی خفیف سی جھنجھلاہٹ ہر وقت زندہ رہے جو کسی بھی وقت بھڑک اٹھ سکتی ہے،
اگر آپ چاہتے کہ کسی چھوٹی سی بات پر آپ کا خون کھول جائے،
اگر آپ چاہتے کہ آپ کے گھر میں خاموشی چھا جائے مگر وہ خاموشی اطمینان کی نہ ہو بلکہ تھکن کی ہو۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو آدھی رات کو ایک ایسا میسج آئے جس سے آپ کی نیند اڑ جائے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دن کا آغاز ہی ایک الجھن سے ہو،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہر کام کے بیچ میں کوئی ایسی رکاوٹ آ جائے جس کا حل آپ کے پاس نہ ہو،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے اعصاب ہمیشہ تناؤ میں رہیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ کانپنے لگیں اور دل دھڑکنے لگے جب آپ کسی معمولی کام کی ذمہ داری اٹھائیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے اردگرد ہر شخص آپ سے کچھ مانگے مگر آپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ بازار میں آپ کا دل کرے کچھ خریدنے کو مگر کوئی ان دیکھی طاقت آپ کو روک دے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کچھ خرید بھی لیں تو دل میں ایک عجیب سا احساس جرم جاگ جائے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لاکھوں روپے کے مالک ہونے کے باوجود بیچ بازار میں آپ کسی بھک منگے کی طرح کھڑے ہوں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے سامنے موجود چیزیں آپ کی پہنچ میں ہوتے ہوئے بھی آپ سے دور محسوس ہوں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہر دکاندار کا چہرہ آپ کو کسی طنز بھری مسکراہٹ میں لپٹا ہوا دکھائی دے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی کے سامنے آپ کو ایسا لگے جیسے آپ خالی ہاتھ ہیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کھڑے لوگ آپ کو ترس بھری نظروں سے دیکھیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپنے آپ کو معزز، پڑھا لکھا اور ڈیسنٹ سمجھنے کے باوجود لوگ آپ کو حقارت سے دیکھیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی قطار میں کھڑے کھڑے آپ کو لگے وقت تھم گیا ہے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے چہرے پر جھنجھلاہٹ کے نشان سب کو نظر آئیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو ایک نظر دیکھ کر پہچان لیں کہ آپ کے اندر کچھ ٹوٹ چکا ہے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا صبر رفتہ رفتہ گھل جائے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے اندر اطمینان کا آخری ذرّہ بھی باقی نہ رہے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ خود سے ہی خفا ہو جائیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دن اور راتوں کی حد مٹ جائے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی کے سامنے آپ کی بے بسی تماشا بن جائے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ پر ہنسیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے چہرے پر ایسا تاثّر جم جائے جیسے زندگی نے آپ کو دھوکہ دیا ہو،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کسی دکان پر کھڑے ہوں اور محسوس کریں کہ دنیا آپ کے ساتھ کھیل رہی ہے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آ کر آپ کی جیب سے کچھ نکال لے جائے اور آپ صرف دیکھتے رہ جائیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا وجود خود آپ کے لیے بوجھ بن جائے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے اردگرد کے سب لوگ آپ کو ملامت کی نظر سے دیکھیں۔
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ سے ذلت آمیز سلوک کرے،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کسی کے سامنے مجرم بن کر کھڑے ہوں بغیر کوئی جرم کیے،
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کے ساتھ انتہائی حتک آمیز رویہ اختیار کرے،
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کو ان غلطیوں اور کوتاہیوں کی سزا ملے جو آپ نے کبھی کی ہی نہ ہوں۔
اور اگر آپ واقعی یہ سب چاہتے ہیں
تو پھر آپ چپ کر کے، خاموشی سے حبیب بینک لمیٹڈ میں اپنا کرنٹ یا سیونگ اکاؤنٹ کھلوا لیں۔
جیسے ہی آپ یہ کام کر لیں گے، یقین مانیں، یہ ساری خواہشیں ایک ایک کر کے پوری ہونا شروع ہو جائیں گی۔
اور عنقریب آپ کا آخری منصوبہ خودکشی کرنے کا ہوگا۔
اور اگر آپ پہلے سے ہی حبیب بینک کے کسٹمر ہیں،
تو ان ساری چیزوں سے آپ گزر رہے ہیں۔
تو دوسرا حل یہ ہے کہ حبیب بینک سے اپنا اکاؤنٹ ختم کریں،کسی بھی دوسرے بینک میں اکاؤنٹ کھلوا لیں،کثرت سے استغفار کریں،اور اپنی زندگی کو پرسکون کر لیں۔