کبھی کسی کم عمر لڑکی کے چہرے پر ہنستی آنکھوں کی چمک کو دیکھ کر معاشرہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہی حسن کا کمال ہے، یہی دلکشی کا پیمانہ ہے۔ نرم و نازک جلد، ہونٹوں پر تازگی کا رنگ اور عمر کی ابتدائی سرگوشیاں ہمارے سماجی شعور کو اس قدر قید کر چکی ہیں کہ عورت کے وجود کی گہرائی، اس کی سوچ، اس کی دانش سب کچھ اس ظاہری شباب کے سامنے ماند پڑ جاتا ہے۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے وہی چہرہ جو کبھی تحسین کا مرکز تھا اب محض وقت کے اثرات کی مثال بن کر رہ جاتا ہے۔ اکثر لوگ اس بات کو تسلیم کرنا کیوں گوارا نہیں کرتے کہ وقت کے نشانات میں بھی ایک الگ حسن چھپا ہے تجربے کا، قربانی کا، اور جینے کی سچائی کا حسن۔
پھر آتی ہے درمیانی عمر کی عورت وہ جو زندگی کے تجربوں سے گزر چکی ہے جس کے چہرے پر روشنی اور سایہ دونوں کی کہانیاں رقم ہیں۔ اس کی آنکھوں میں خواب بھی ہیں اور حقیقت کی دھول بھی مگر سماج کی نظر صرف اس پر ٹھہرتی ہے کہ اب وہ جوان نہیں رہی۔ وہ جس نے گھر سنوارا، رشتے نبھائے، خود کو پسِ پشت رکھ کر دوسروں کی راحت کو ترجیح دی اُسے صرف اس کی عمر کی بنیاد پر غیر دلکش قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں سے انسانی سوچ کی تنگی کا آغاز ہوتا ہے جہاں عورت کو محض ایک چہرہ سمجھ کر اس کی روح کے رنگ بھلا دیے جاتے ہیں۔
اور جب یہی عورت بڑھاپے میں داخل ہوتی ہے تو معاشرہ جیسے اُس کے وجود سے ہی نظریں چرا لیتا ہے۔ اُس کے چہرے کی جھریاں جو صدیوں کی داستانیں کہتی ہیں ہمارے لیے غیر ضروری بن جاتی ہیں۔ وہ چہرہ جو محبت، قربانی، ماضی اور تجربے کا مرقع ہے اسے ہم نے کمزور اور غیر متعلق قرار دے دیا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ بزرگ عورت کے چہرے پر نہ صرف وقت لکھا ہوتا ہے وہاں انسانیت کی گہرائی، زندگی کے فلسفے اور صبر کی روشنی چھپی ہوتی ہے۔ مگر ہم اس روشنی کو دیکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ ہماری نگاہیں صرف اور صرف جوانی کے طلسم میں قید ہیں۔
یہی وہ زنجیر ہے جسے معروف اداکارہ ثانیہ سعید نے اپنے حالیہ انٹرویو میں توڑا۔ فیسز آف پاکستان پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بڑی سچائی سے کہا کہ ہمارے معاشرے میں کم عمر خواتین کو ہی پرکشش سمجھا جاتا ہے اور یہی سوچ ہمارے میڈیا اور ادب دونوں میں گہرائی سے پیوست ہے۔ ان کے مطابق ہماری شوبز کہانیوں میں عورت تب تک مرکز میں رہتی ہے جب تک وہ جوان ہے جب تک اُس کے چہرے پر وقت کے نشانات نہیں اترے۔ مگر جیسے ہی وہ عمر کے ایک خاص دہانے پر پہنچتی ہے اُسے کہانی سے نکال دیا جاتا ہے، جیسے اُس کا کردار ختم ہو گیا ہو۔
ثانیہ سعید نے نہایت باریک بینی سے اس رویے کی نشاندہی کی کہ ادب اور میڈیا عورت کو اس وقت تک اہمیت دیتے ہیں جب تک وہ دلکش نظر آتی ہے۔ انڈسٹری کے اصولوں میں یہ نظریہ گُھل چکا ہے کہ جتنی کم عمر لڑکی ہوگی وہ اتنی زیادہ قابلِ فروخت ہوگی۔ ڈرامہ ہو یا فلم ہو کہانی کی قدر اب کردار کی گہرائی سے کہیں زیادہ چہرے کی تازگی سے ماپی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 35 سال کی خاتون کو اب ہیروئن کی بجائے ماں کے کردار میں دھکیل دیا جاتا ہے جیسے عورت کی اصل کہانی جوانی ختم ہونے کے ساتھ ہی تمام ہو جاتی ہو۔
انہوں نے کہا کہ عورت کی زندگی کا ادوار اصل میں اسی عمر سے شروع ہوتی ہے اور محترمہ کا یہ جملہ محض ایک بات ہے قسم سے حقیقت میں یہ جملہ پورے معاشرتی فریم پر چوٹ ہے۔ عورت جب اپنے شعور، تجربے اور احساس کے ساتھ جینا سیکھتی ہے تب وہ خود کو سمجھنا شروع کرتی ہے مگر یہی وہ لمحہ ہے جب معاشرہ اسے نظرانداز کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جو ہمارے ادب اور ہمارے رویوں دونوں میں جڑا ہوا ہے۔
ادب، جو انسانی احساسات کی ترجمانی کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے وہ خود بھی اس تعصب کا شکار ہے۔ ناولوں، افسانوں، فلموں اور ڈراموں میں نوجوان عورت کی محبت، جدوجہد اور خوابوں کو تو بڑی محنت سے تراشا جاتا ہے مگر درمیانی یا بڑھاپے کی عورت کی دنیا کو اکثر سطر کے حاشیے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اصل زندگی کی خوبصورتی انہی کرداروں میں پوشیدہ ہے جو وقت کے ساتھ نکھرتے ہیں، جو ہر موسم کی سختی جھیل کر بھی مسکرانا جانتے ہیں۔ یہی وہ خواتین ہیں جن کی کہانیوں سے ادب کو وہ گہرائی مل سکتی ہے جو اسے حقیقتاً لازمی ہے۔
ثانیہ سعید خود اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہیں کہ اداکاری میں عمر نہیں اس سے بڑھ کر احساس اور تجربہ معنی رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ ایسے کردار چُنے جن میں مادریت، قربانی، محبت اور ادراک کا رنگ نمایاں رہا۔ ان کے کردار ماں کے روپ میں ہوں یا کسی تھکی عورت کے ان میں زندگی کی سچائی جھلکتی ہے۔ یہی وہ گہرائی ہے جو ہمارے ڈراموں میں کم ہوتی جا رہی ہے وہ گہرائی جو ایک بالغ عورت کے اندر چھپی ہوئی داستانوں سے جنم لیتی ہے۔
اے غفلت میں ڈوبے ہوئے انسانوں چہرے کے بجائے کردار دیکھنا سیکھیں۔ حسن صرف نرمی میں نہیں ہے صبر میں بھی ہے۔ خوبصورتی صرف ہنستی آنکھوں میں نہیں ہے تھکے ہوئے چہروں کے اطمینان میں بھی ہے۔ اگر ہم عورت کو اُس کی عمر سے آزاد کر کے دیکھیں تو ہمیں ہر مرحلے میں ایک نیا رنگ، ایک نئی روشنی اور ایک نیا معنی نظر آئے گا۔
بخدا دنیا کو اس نکتۂ نظر کی بہت زیادہ ضرورت ہے جسے ثانیہ سعید نے بے باکی سے بیان کیا کہ عورت کی اصل کشش اُس کی عمر میں نہیں ہے اُس کے وجود کی سچائی میں ہے۔ جب ہم اس سچائی کو سمجھنے لگیں گے تب شاید ہمارا ادب بھی نیا جنم لے گا اور میڈیا بھی ایک ایسا آئینہ بنے گا جس میں ہر عمر کی عورت خود کو خوبصورت دیکھ سکے اپنی اصل، اپنی پہچان اور اپنے وقار کے ساتھ۔