پچھلے پانچ عشروں سے ایک ایسی برادری، جو کبھی پاکستان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی تھی، آج بھی بنگلہ دیش کی بستیوں اور کیمپوں میں ریاست سے محروم زندگی گزار رہی ہے۔
ان کی کہانی شاذ و نادر ہی ہمارے سرکاری بیانیے یا عوامی مکالمے میں جگہ پاتی ہے۔
اگر ہم واقعی پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اعتماد اور ہمدردی کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان بھولے بسے لوگوں — محصور پاکستانیوں — کو تسلیم کرنے سے آغاز کرنا ہوگا۔
یہ چند عملی اور انسان دوست اقدامات ہیں جو اس سمت میں مددگار ہو سکتے ہیں:
1. شناخت اور واپسی کا حق
جو افراد پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں، ان کے لیے واضح راستہ بنایا جائے۔
کم از کم اتنا ضرور تسلیم کیا جائے کہ ان کی بھی کوئی شناخت اور کہیں سے تعلق ہے۔
2. میڈیا اور آگہی
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک مشترکہ میڈیا مہم شروع کی جائے، جو رسمی تصویروں اور سفارتی بیانات سے ہٹ کر اس بھولی بسری انسانی کہانی کو اجاگر کرے۔
3. مشترکہ ورکنگ گروپ
ایک چھوٹا مگر متحرک پاک–بنگلہ دیش ورکنگ گروپ قائم کیا جائے، جو صرف محصور اور بے وطن پاکستانیوں کے مسئلے پر کام کرے۔
اس کے لیے واضح مدت، مقاصد اور عملی ذمہ داریاں طے کی جائیں — لامتناہی “گفتگوؤں” کے بجائے حقیقی پیش رفت ہو۔
اس میں وہ لوگ شامل کیے جائیں جو دیانت اور ساکھ رکھتے ہیں، نہ کہ وہی پرانے نام جو ہر فورم پر دکھائی دیتے ہیں۔
4. صحت اور وقار
ان بستیوں میں باقاعدگی سے ہیلتھ کیمپس لگائے جائیں۔
کیمپ میں رہنے والوں کے لیے ہیلتھ کارڈز جاری کیے جائیں تاکہ کسی بھی اسپتال میں ضرورت پڑنے پر داخلہ ممکن ہو۔
کسی انسان کو محض بے وطنی کی بنیاد پر علاج سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے۔
5. تعلیم اور خودمختاری
نوجوانوں کے لیے اسکالرشپ اور ہنر سکھانے کے پروگرام شروع کیے جائیں تاکہ ان کی یادیں مایوسی کے بجائے امید اور ترقی سے جڑیں۔
6. دستاویزی سچائی
ایک غیر جانب دار حقائق جانچنے کا مشن تشکیل دیا جائے اور اس کی رپورٹ شائع کی جائے۔
جو لوگ زندہ گواہ ہیں، ان کی آوازیں اور کہانیاں محفوظ کی جائیں۔
یہ زخم کریدنے کے لیے نہیں بلکہ عزتِ نفس بحال کرنے کے لیے ضروری ہے۔
7. براہِ راست مکالمہ
جب اس برادری سے بات کی جائے تو عام خاندانوں سے ملاقات کی جائے — نہ کہ خود ساختہ "رہنماؤں” سے جو ذاتی مفاد کے لیے بولتے ہیں۔
ان عورتوں، نوجوانوں، اساتذہ اور بزرگوں کو سنا جائے جو واقعی ان کیمپوں میں رہتے ہیں۔
ہر مشاورت میں خواتین اور لڑکیوں کی شمولیت لازمی بنائی جائے — ان کی کہانیاں اکثر سب سے سچی اور دردناک ہوتی ہیں۔
8. درست ڈیٹا بیس کی تیاری
بنگلہ دیش کے مختلف شہروں اور قصبوں میں موجود (تقریباً 80 کے قریب) کیمپوں میں رہنے والے تمام بے وطن افراد کا درست اور شفاف ڈیٹا بیس تیار کیا جائے۔
جب تک ٹھوس اعداد و شمار نہیں ہوں گے، کوئی مؤثر پالیسی نہیں بن سکتی۔
9. ضبط شدہ جائیدادوں کی واپسی
ان "دشمن املاک” کی واپسی یا معاوضے پر کام کیا جائے، جو اب بھی ان کیمپوں میں بسنے والے ان کے جائز وارثوں سے چھینی گئی تھیں۔
10. خاندانی ملاپ
ان بچھڑے خاندانوں کو دوبارہ ملانے کے لیے اقدامات کیے جائیں — یعنی وہ بہاری یا غیر بنگالی اردو بولنے والے جو بنگلہ دیش کے عارضی کیمپوں میں ہیں، انہیں ان رشتہ داروں سے ملایا جائے جو پہلے ہی پاکستان میں آباد ہیں۔
جب تک خاندان بچھڑے رہیں گے، مفاہمت نامکمل رہے گی۔
11. تاریخی بیانیے کی شفایابی
ان جنگی عجائب گھروں اور نمائشوں کے مواد کو دوبارہ سیاق و سباق کے ساتھ پیش کیا جائے، جو نفرت یا تعصب کو ہوا دیتے ہیں — خاص طور پر وہ مناظر یا تصویریں جو تضحیک یا اشتعال انگیزی پر مبنی ہیں۔
تاریخ کو انتقام کے نہیں، تفہیم اور معافی کے زاویے سے دیکھا جائے۔
12. نوجوانوں کا تبادلہ اور ثقافتی روابط
پاکستان اور بنگلہ دیش کے نوجوانوں کے درمیان دوستی اور ثقافتی تبادلے کے مستقل پروگرام شروع کیے جائیں — صرف اشرافیہ تک محدود نہیں، بلکہ ان کیمپوں کے نوجوان بھی شامل ہوں۔
یہی نوجوان نفرت کی وراثت کے بجائے محبت اور احترام کا نیا بیانیہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
جب تک ہم 1971 کے ان زخموں کو تسلیم نہیں کرتے جو آج بھی مندمل نہیں ہوئے،اور جب تک ہم ان بھولے بسے لوگوں کے خاموش دکھوں کو محسوس نہیں کرتے،تب تک پاکستان اور بنگلہ دیش کا تعاون ادھورا رہے گا۔
امید ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی آئندہ ملاقاتیں صرف خوش گفتاری اور رسمی یا ڈپلومیٹک مسکراہٹوں تک محدود نہ رہیں، بلکہ سُننے، تسلیم کرنے، اور انسانی ہمدردی پر مبنی عمل کے حقیقی فورم بن سکیں ۔
ایسے عمل جو جذبات کے بجائے درستی، اور رائج بیانیوں کے بجائے حقیقی تاریخ پر مبنی ہوں نہ کہ مغویہ سیاست، مفتوحہ تاریخ اور مقبوضہ صحافت پر۔