حافظ نعیم الرحمن: پاکستان میں حقیقی تبدیلی کا پیامبر

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن 1970ء میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ اور جامعہ کراچی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ نعیم الرحمن نے 1990ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ دو سال تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بھی رہے۔

2000ء میں وہ جماعت اسلامی پاکستان کے رکن بنے۔ انہوں نے بطور اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، جنرل سیکرٹری، نائب امیر جماعت اسلامی کراچی اور امیر جماعت اسلامی کراچی خدمات انجام دیں۔ وہ 2013ء میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر بنے اور 2024ء تک اسی منصب پر فائز رہے۔

حافظ نعیم الرحمن 2024ء میں امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب ہوئے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک انجینئر ہیں اور لاہور کی ایک کمپنی کے ساتھ بطور انجینئر وابستہ ہیں جو رہائشی منصوبوں میں واٹر ٹریٹمنٹ کی خدمات فراہم کر رہی ہے۔ اسی شعبے میں ان کے پاس بیس سال کا تجربہ ہے۔

حافظ نعیم الرحمن ایک ذہین و فطین، سنجیدہ و فہمیدہ، متحرک و فعال، ایماندار و باکردار، مخلص و توانا اور تیز و طرار سیاسی لیڈر کے طور پر نہ صرف پاکستان میں بلکہ پورے عالم اسلام میں شہرت رکھتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کو دنیا کے پانچ سو اہم ترین مسلمان افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ فہرست اردن کے رائل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز نے سال 2026 کی پانچ سو بااثر مسلمان شخصیات کے ضمن میں جاری کی ہے۔

جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کو محض ایک مذہب نہیں بلکہ خدائی ہدایات پر مشتمل ایک پورا نظام حیات سمجھتی ہے۔ وہ بجا طور پر یقین رکھتی ہے کہ دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ زندگی کو منشائے خداوندی کے مطابق گزارنے کے لیے درکار اصولوں کا مجموعہ ہے۔ وہ دنیا کے معاملات کو دین کی روشنی میں دیکھنے اور برتنے کی قائل ہے۔ اسلام اجتماعی معاملات چلانے کے لیے دیانت، امانت، صداقت، بصیرت اور شفافیت کے اصولوں پر زور دیتا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ جب تک ان اصولوں کے مطابق نہ چلا جائے، معاملات حیات کبھی درست نہیں ہو سکتے۔ ہم اسی نظریاتی پس منظر میں حافظ نعیم الرحمن کی شخصیت اور کردار و خدمات کا جائزہ لیں گے۔

پاکستان کے سیاسی افق پر چند ہی ایسی شخصیات ہیں جو اپنی صلاحیت، کردار، خدمات اور عوامی مسائل کے حوالے سے امید کی کرن بن کر ابھری ہیں۔ انہی میں سے ایک نام حافظ نعیم الرحمن کا ہے، جو نہ صرف ایک پرعزم سیاسی رہنما ہیں بلکہ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے والے ایک مسیحا کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی سیاسی جدوجہد کا سفر ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ اگر خلوص اور صلاحیت کو یکجا کر دیا جائے تو قومی تقدیر کو کامیابی سے بدلا جا سکتا ہے۔

قیادت نام ہے ادراک کا، احساس کا، بصیرت کا، شرافت کا، عدالت کا، شجاعت کا، محبت کا اور انسانی دکھوں کو اپنے دل میں جمع کر کے حل کے لیے عملی طور پر غیر مشروط اور لامحدود جذبے سے سرگرم رہنے کا۔

حقیقی قائد وہی قرار پاتا ہے جو مذکورہ بالا اوصاف سے نہ صرف اچھی طرح متصف ہو بلکہ ان کی متضاد خرابیوں سے پاک بھی ہو۔ ایسے ہی لوگ قیادت کے بھاری بوجھ کو اٹھانے اور کڑے تقاضوں کو پورا کرنے پر قادر ہو سکتے ہیں، ورنہ ہمارے ہاں تو لیڈروں کو عام طور پر کرپٹ، بے ایمان، مفاد پرست، نااہل اور بدکردار ہی سمجھا جاتا ہے۔

حافظ نعیم الرحمن کی شخصیت میں روایتی سیاست دانوں کی بجائے ایک عوامی خادم کے نقش و نگار واضح نظر آتے ہیں۔ ان کا کردار ہمیشہ شفافیت، دیانتداری، محنت، تحرک اور بے غرضی کا مرقع رہا ہے۔ وہ سیاست کو ذاتی مفاد کے بجائے قومی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں ہر طبقہ فکر میں یکساں احترام اور پذیرائی حاصل ہے۔

2024ء کے انتخابات میں انہوں نے کراچی سے بطور ایم پی اے جیتی ہوئی سیٹ یہ کہہ کر چھوڑ دی کہ اس پر پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک ایسی جگہ جہاں جیتنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا جاتا ہے اور دھاندلی کے ذریعے جیتنے کا عمومی ماحول پایا جاتا ہو، وہاں ایسی مثال قائم کرنا بلاشبہ بہت بڑی اخلاقی اور انسانی خوبی کا ثبوت ہے۔

ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، لیکن ان کی سب سے بڑی خوبی غریب اور پسماندہ عوام کے مسائل کو مسلسل اجاگر کرنا رہی ہے۔ چاہے وہ کراچی کے مسائل ہوں یا پورے ملک میں پھیلے ہوئے طرح طرح کے بحران، حافظ نعیم الرحمن ہمیشہ عوامی آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔

کراچی، جو پاکستان کا معاشی دل ہے، کم و بیش چار کروڑ آبادی کے ساتھ نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا شہر بلکہ دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی آبادی دنیا کے ایک سو پچاس ممالک سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ عظیم شہر عشروں پر پھیلی بدانتظامی، دہشت گردی، بے ایمانی، بھتہ خوری، لسانی فسادات، گروہی بدمعاشی اور فرقہ واریت کی لپیٹ میں رہا ہے۔ کراچی کی تاریخ میں حافظ نعیم الرحمن پہلے لیڈر ہیں جنہوں نے اس شہر کے تمام تر مسائل کو نہایت خلوص، اہتمام، جذبے اور سمجھداری سے اجاگر کیا ہے، بالخصوص امن و امان کی سنگین صورت حال، کرپشن، کے الیکٹرک کی نااہلی، بجلی کے بحران، صاف پانی کی نایابی اور عمومی بدانتظامی کے خلاف ہمیشہ جرأت مندانہ موقف اپنایا ہے۔

ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور آئی پی پیز کے سبب بھاری بھرکم بلوں، جو عوام کے لیے قطعاً قابل برداشت نہیں، کے خلاف انہوں نے ایسی پرزور تحریک چلائی کہ وہ پوری قوم کی آواز بن گئی۔ بالآخر اصلاح احوال کے لیے حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے مذاکرات پر مجبور ہوئی اور نہ صرف بجلی کے بلوں میں کمی کا اعلان کیا بلکہ آئی پی پیز مالکان سے عشروں قبل کیے گئے انتہائی ظالمانہ اور ناقابل فہم معاہدے بھی ختم کروائے۔ بجلی نہ بنتی تھی نہ ہی عوام کو ملتی تھی، لیکن کیپیسٹی چارجز کے نام پر اربوں روپے کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتا تھا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس فیصلے سے قومی خزانے کو چھتیس سو ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔

حافظ نعیم الرحمن نے نہ صرف بجلی کے بحران اور اس کے پس پردہ اسباب و معاہدات کو واضح کیا بلکہ اس کے مستقل حل کے لیے بھی جامع پالیسیاں پیش کیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بجلی کی کمی کا خاتمہ ہی صنعتی ترقی، عوامی سہولت اور معاشی استحکام کی کنجی ہے۔

عشروں پر محیط ہمہ جہت کرپشن پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی توڑ چکی ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی تجارت اور صنعت کی بجائے پاکستان کا انحصار قرضوں اور دوست ممالک کی امداد پر ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے ہمیشہ اس لعنت کے خلاف بے خوفی سے بات کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے سب سے پہلے کرپشن کے اژدھے کا سر کچلنا ہوگا۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ اگر ملک میں کرپشن اور وسائل کے ضیاع کو روک دیا جائے تو پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

نوجوانوں کو خوشحال اور بااختیار بنانے کے لیے ان کا "بنو قابل” پروگرام ایک انقلابی قدم ہے۔ اس منصوبے کے تحت لاکھوں کی تعداد میں نوجوانوں کو مفت جدید آئی ٹی مہارتیں سکھا کر انہیں روزگار کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یہ پروگرام نہ صرف بے روزگاری کے خلاف جنگ ہے بلکہ پاکستان کو ڈیجیٹل دور میں لے جانے کا ایک مضبوط ذریعہ بھی ہے۔ اب تک ملک بھر میں اس پروگرام کے لیے تقریباً بارہ لاکھ سے زائد افراد رجسٹر ہو چکے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے تربیت حاصل کر کے اپنے اپنے شعبہ جات میں کام کا آغاز کیا ہے۔

حافظ نعیم الرحمن کی سب سے زیادہ توجہ نوجوان نسل پر ہے، اور نوجوانوں کے لیے ان کی توجہ سب سے زیادہ تعلیم کے شعبے پر ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ملک کی ترقی کا راز معیاری تعلیم و تربیت میں پوشیدہ ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے آٹھ بنیادی شعبہ جات میں سے ایک طلباء کو تعلیمی معاونت فراہم کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت اب تک ہزاروں کی تعداد میں غریب بچے تعلیم کی روشنی سے منور ہوئے ہیں۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام "آغوش” کے نام سے ایک تعلیمی پراجیکٹ چل رہا ہے۔ یہ منصوبہ ملک بھر کے یتیم بچوں کے لیے قائم کیا گیا ہے، جہاں نہ صرف تمام ضروریات اور سہولیات بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں بلکہ یہاں کا تعلیمی معیار اور تربیتی اہتمام بھی بہت اعلیٰ ہے۔ مکمل طور پر نظر انداز اور محرومی کا شکار بچوں کو لے کر انہیں بہترین اور خوشگوار ماحول میں اعلیٰ پیمانے پر تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا بلاشبہ پاکستان جیسے ملک میں ایک معجزے جیسا ہے۔

حافظ نعیم الرحمن مذہبی ہم آہنگی اور قومی رواداری کے بہت بڑے علمبردار ہیں۔ وسعت قلبی ان کی سیاست کا اہم ستون ہے۔ وہ فرقہ واریت اور قوم پرستی کے سخت خلاف ہیں اور پاکستان کو ایک متحد قوم بنانے کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اسلام کی سربلندی، انصاف کے قیام اور پاکستان کی سالمیت کا مقصد اپنی جدوجہد کا محور بنایا ہے۔

خواتین کے حقوق اور ان کی سماجی شمولیت کے حوالے سے بھی حافظ نعیم الرحمن کے خیالات نہایت واضح اور صحت مندانہ ہیں۔ وہ خواتین کو معاشرے کا فعال اور کارآمد حصہ بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

حافظ نعیم الرحمن کی سیاسی بصیرت اور دوراندیشی انہیں دوسرے رہنماؤں سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ موجودہ مسائل کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے چیلنجز کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں ایک بہتر پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ ان کے پاس نہ صرف عوام کے مسائل کا ادراک ہے بلکہ ان کے پاس حل کا واضح روڈ میپ بھی موجود ہے۔ کراچی کے جن مقامات پر لوگوں نے جماعت اسلامی کو مینڈیٹ دیا، اب وہاں تیزی سے مسائل حل ہو رہے ہیں، جبکہ وسائل عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ صاف پانی کے منصوبے شروع ہو رہے ہیں، پارک بن رہے ہیں، گلیاں پختہ ہو رہی ہیں، تجاوزات ہٹ رہے ہیں، گویا کراچی کی روشنیاں اور رونقیں بحال ہو رہی ہیں۔

عوام کے پاس اب یہ تاریخی موقع ہے کہ وہ حافظ نعیم الرحمن جیسے قائد کی بھرپور حمایت کر کے ملک کی تقدیر بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کی حمایت درحقیقت پاکستان کے نظام اور انتظام کی درستگی کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھے گی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے ہمیں خلوص اور صلاحیت سے مالا مال قیادت کو منتخب کرنا ہوگا۔ حافظ نعیم الرحمن اس وصف کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔

زندہ اور باشعور اقوام ہمیشہ اپنی قیادت کی حفاظت اپنے ووٹ، فیصلوں، نگرانی اور احتساب کے ذریعے کرتی رہتی ہیں، اور اس حساس ترین اجتماعی معاملے میں کسی بھی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کے متحمل بالکل نہیں ہو سکتیں۔ یہی قومی خوبی ان کے ہاں اجتماعی نظام کو ہر طرح کی نااہلی، کرپشن اور دوسرے مجرمانہ کاموں سے محفوظ رکھتی ہے، اور اس کا نتیجہ انہی قوموں کو قومی ترقی، خوشحالی اور عمومی سکون و تحفظ کی صورت میں مل جاتا ہے۔

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اور جتنا کچھ زندگی میں پڑھا، سوچا اور سمجھا ہے، تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ملت پاکستان ووٹ، نوٹ، وقت اور زبان کے درست اور ذمہ دارانہ استعمال کے حوالے سے کسی بہتر پوزیشن میں بالکل نہیں ہے۔

قیادت میں کارکردگی، اہلیت اور صلاحیت دیکھنے کے بجائے بس اس کے نعروں، دعووں، وعدوں اور تقریروں کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے، اور اسی بنیاد پر لوگ اپنے سیاسی اور انتخابی فیصلے کر رہے ہیں۔ اس روش کو جتنی جلدی ممکن ہو بدلنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارے قومی احوال مناسب رفتار سے بہتر انداز میں بدلنا شروع ہو جائیں۔

انصاف، تحفظ، بجلی، پانی، گیس، سرکاری خدمات اور سہولیات تک رسائی، امن و امان، بارش اور ہوائیں دنیا میں نعمتیں اور سہولیات سمجھی جاتی ہیں، لیکن یہی چیزیں ہم وطنوں کے لیے جان لیوا مسائل بن کر رہ گئی ہیں، جن سے روزانہ عوام کی زندگیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔

آٹھ عشروے ہونے کو ہیں، لیکن ملک کو وہ قیادت میسر ہی نہیں آئی جو قوم کے وسائل کو امانت سمجھے، مسائل کو دیرپا طور پر حل کرے، نت نئے امکانات اور مواقع تخلیق کرے، دیانت، امانت، شرافت اور احساس ذمہ داری کو عمومی رواج دے اور قوم کو ایک عملی مشن، نظریاتی وژن اور بلند تر اقدار و اخلاق سے جوڑ دے، اور یوں ہماری تقدیر بہتر، مستقبل روشن اور حال احوال ہمہ جہت پیمانوں سے اطمینان کا باعث بنیں۔

اس قدر تلخ تجربات سے اب ہمیں یہ سبق بہر صورت سیکھنا چاہیے کہ قیادت کے انتخاب اور اٹھان میں دیانت و اہلیت کو پیش نظر رکھیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ قوم کا اصل کام اور صوابدید ہے، کسی اور کا نہیں۔ اس وقیع کام کے لیے قوم کے پاس جو وسائل ہیں، وہ ووٹ، نوٹ، وقت اور زبان ہیں، کوئی علاء الدین کا چراغ نہیں۔ اب چاہیے کہ لوگ ذمہ داری، ایمانداری اور کثرت سے یہ وسائل نیک، اہل اور ایمان دار لیڈروں اور جماعتوں کے حق میں استعمال کریں۔ یقین کریں، اس راستے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا جس سے قوم کے حالات درست انداز میں بدل سکیں۔

حافظ نعیم الرحمن جس خلوص، انتھک محنت، سدا بہار محبت اور ہمدردی، والہانہ لگن اور مستقل مزاجانہ جدوجہد سے عوام کے دردمند مسائل کا مقدمہ ہر وقت اور ہر محاذ پر لڑ رہے ہیں، اور صرف یہی نہیں بلکہ کسی بھی سطح کے اقتدار اور حکومتی سرپرستی کے بغیر بے شمار مواقع، وسائل اور امکانات بھی پیدا کر رہے ہیں، لوگوں کو ہمہ وقت سمجھا رہے ہیں، راستہ دکھا رہے ہیں، مسائل کی وجوہات پر بات کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حل بھی بتا رہے ہیں، لیکن اب تک کے حالات بتا رہے ہیں کہ نہ عوام کو کچھ سمجھ آئی ہے نہ ہی خواص کو۔ مزید اس غفلت سے دامن چھڑانا ہوگا اور قابل و ایمان دار لوگوں کا ساتھ دینا ہوگا۔

حافظ نعیم الرحمن کے وژن کی تازہ ترین مثال "بنو قابل” ہے۔ اس پروگرام کے تحت بے شمار مفت آئی ٹی کورسز پیش کیے جا رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں نوجوان طلباء و طالبات سے اپٹیٹیوڈ ٹیسٹ لیا جاتا ہے، اور کامیاب ہونے والے نوجوانوں کو ان کی مرضی کے آئی ٹی کورسز کروائے جاتے ہیں۔ "بنو قابل” کا آغاز کراچی سے ہوا تھا، لیکن اب یہ ملک بھر میں پھیل گیا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں نوجوان مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ پروگرام تعلیم اور معیشت کے حوالے سے ایک اہم بلکہ انقلابی قدم ہے۔

حالیہ ہفتوں میں "بنو قابل” پروگرام کے لیے ٹیسٹوں کے انعقاد میں ملک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات نے بھرپور شرکت کر کے مایوسی اور ناامیدی کی فضا میں کامیابی کی جانب نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی پیش رفت کے جذبے کو ظاہر کیا ہے۔ ایسے مناظر کم از کم پاکستان میں تو پہلے کہیں نہیں دیکھے گئے۔ ایک طرف ایسے منصوبے اور پروگرامات ہیں، لیکن دوسری طرف جب ووٹ اور سپورٹ کا وقت آجاتا ہے تو لوگوں کا دماغ چلاجاتا ہے اور وہ اپنے محسنوں اور مصیبتوں میں فرق ایک دن کے لیے بھول جاتے ہیں۔ اگلے پانچ سال وہ گرد و پیش میں موجود مصیبتوں سے لڑتے لڑتے روتے ہیں اور روتے روتے لڑتے ہیں، لیکن سوچ بچار سے کم ہی کام لیتے ہیں، اور یوں ہر گزرتا دن ان کی مصیبتوں میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اب عوام اپنے انتخابی اور سیاسی رویوں پر سوچ بچار کر کے ان میں ضروری بہتری اور تبدیلی لے آئے۔ لوگوں کو چاہیے کہ ووٹ اور سپورٹ کو کارکردگی، خدمت اور ایمانداری سے مشروط کر دیں، تاکہ وطن عزیز کی تقدیر بدل جائے اور لوگ خوشحالی کے مزے لیں۔ ووٹ کا درست استعمال یقینی بنائیں اور اس وسیلے کو اہل، ایمان دار اور مستحق لوگوں کے حق میں استعمال کریں، تو نہ صرف ہمارا ملک ترقی کی دوڑ میں تیزی سے آگے نکل سکتا ہے بلکہ دنیا کی باوقار اقوام میں ہمارا شمار شروع ہو جائے گا۔

کل رات حافظ نعیم الرحمن ملک بھر میں اپنے کارکنان سے آن لائن مخاطب ہوئے تھے۔ ان کی تقریر میں شامل چیدہ چیدہ نکات ملاحظہ کیجیے:

کہا:

1. "ہمارا مطلوب انتخابات میں سیٹیں لینا نہیں، اقامت دین ہے۔ اللہ کی حاکمیت قائم کرنا ہے۔ انتخابات تو اس کا ذریعہ ہیں۔”

کہا:

1. "جماعت اسلامی کا کارکن علیحدہ تھڑا نہیں ہوتا۔ معاشرے کے ساتھ ہوتا ہے۔ لوگوں کو شراکت کا احساس دیتا ہے، جس کے پاس لوگ اپنی بات کرنے آئیں۔ ان کے لیے مرجع خلائق ہوتا ہے۔ مرجع خلائق ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے بات چیت کر کے غم ہلکا اور خوشیاں دوبالا محسوس ہوں۔”

کہا:

1. "ہماری جدوجہد کے نتیجے میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے کیے جانے والے ظلم سے پچیس کروڑ عوام کو نجات ملی۔ یہ ہماری کامیابی ہے، لوگوں کو بتائیں۔”

کہا:

1. "ہم ایشوز کی سیاست بھی کرتے ہیں، کیونکہ یہ حقیقی مسائل ہیں اور ان پر کام کرنا ہماری جدوجہد کا حصہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مظلوم کو ابوجہل سے حق نہیں دلوایا تھا؟ جس مسئلے کو لوگ بھگتتے ہیں، اس پر آپ کی آواز سنتے ہوں۔ اس سے سیاسی رائے بنے گی۔”

کہا:

1. "ہمارے ہاں مسئلہ نظام کا ہے۔ نظام ایسا ہے کہ بیوروکریسی ہو یا فوج، چند لوگ طاقت حاصل کر کے اپنی مرضی چلاتے ہیں اور بزعم خود معیشت دان، سیاست دان، اور ہر فیلڈ کے ماہرین کہلاتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہے۔”

کہا:

1. "اشرافیہ نے یہاں طبقاتی نظام تعلیم بنایا تاکہ لوگوں کو دبا کر رکھیں۔ تعلیم اور اس کا معیار دولت سے جڑ جائے تو قوم کیسے آگے بڑھے گی؟”

کہا:

1. "افراد کا افراد سے جو رابطہ ہوتا ہے، اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ کمیونیکیشن کے ذرائع کو بہترین طریقے سے استعمال کرنا بھی ضروری ہے، مگر فرد کا فرد سے بات کرنا سب سے مؤثر ہوتا ہے۔ فرد سے ملنا، اسے اجتماعات میں لے کر جانا، لٹریچر پڑھانا فکری پختگی کے لیے ضروری ہے۔”

کہا:

1. "اپنے جھنڈے اور نشان کے ساتھ الیکشن لڑنا جماعت اسلامی کی موجودہ انتخابی حکمت عملی ہے۔ ہم ایشوز پر دیگر پارٹیوں سے ملیں گے، ساتھ بیٹھیں گے، مگر الیکشن اپنے نشان پر ہی لڑیں گے۔”

کہا:

1. "اجتماع عام محض اجتماع برائے اجتماع نہیں، بلکہ اس سوچ کے تحت اس کی دعوت دیں کہ یہ نظام کی تبدیلی کا ذریعہ بنے گا۔ نظام کی تبدیلی ہی ہماری فکر کی اساس ہے۔”

کہا:

1. "پاکستان کے لوگوں کی معقول تعداد کو اس اجتماع میں بلائیں، اور جو نہ آسکیں، ان تک ہمارا پیغام پہنچائیں۔”

کہا:

1. "اس اجتماع کی دعوت ایک جہاد کے جذبے سے دیں کہ اس کے ذریعے ہم قوم کو ایک بہت بڑا میسج دینے جا رہے ہیں۔ اس اجتماع کو اپنی اور عوام کی آواز بنائیں۔ لوگوں کو پتہ ہو کہ جماعت اسلامی بھی ایک آپشن ہے۔”

آئیں، ہم سب مل کر پاکستان کو ترقی، خوشحالی اور استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے حافظ نعیم الرحمن جیسے قائد کی حمایت کا عہد کریں۔ یہی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہترین تحفہ ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے