دنیا کی سیاست میں کبھی کبھار ایسی شخصیات ابھرتی ہیں جو اپنی قابلیت، جدوجہد اور کردار کے ذریعے تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔ غزالہ ہاشمی بھی انہی درخشاں ناموں میں سے ایک ہیں جنہوں نے امریکہ جیسے ترقی یافتہ مگر نسلی و مذہبی تقسیم کے شکار معاشرے میں اپنا مقام قائم کیا اور ایک نئی مثال پیش کی۔ ان کی کامیابی صرف انتخابی جیت تک محدود نہیں رہی ہے یہ پوری نسل کے خوابوں، امیدوں اور حوصلوں کی تعبیر بن گئی۔ حیدرآباد کی گلیوں سے لے کر ورجینیا کے ایوانِ حکومت تک ان کا سفر اس بات کی دلیل ہے کہ محنت، ایمان اور علم کے ذریعے کوئی بھی حد ناقابلِ عبور نہیں رہتی۔ ان کی شخصیت جنوبی ایشیائی برادری کے لیے فخر اور امریکی سیاست کے لیے ایک نیا باب ہے۔
غزالہ ہاشمی کی زندگی کا آغاز 1964 میں بھارت کے تاریخی شہر حیدرآباد میں ہوا۔ چار سال کی عمر میں وہ اپنے والدین کے ساتھ امریکہ منتقل ہو گئیں، جہاں ان کے والد ضیا ہاشمی بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ابتدائی عمر ہی میں انھوں نے نسلی امتیاز اور سماجی تفریق کے اثرات کو قریب سے محسوس کیا، جس نے ان کے شعور پر گہرا اثر ڈالا۔ انھوں نے یہ سیکھا کہ معاشرتی ہم آہنگی صرف انصاف، تعلیم اور مکالمے سے پیدا ہو سکتی ہے۔ یہی احساس ان کے دل میں انسانیت کے لیے خدمت کا جذبہ جگاتا رہا۔ ایک چھوٹے کالج ٹاؤن میں تعلیم پانے والی غزالہ نے جلد ہی اپنی ذہانت اور لگن کے بل بوتے پر نمایاں مقام حاصل کیا۔
تعلیم نے غزالہ کی شخصیت کو وہ بنیاد فراہم کی جس پر انھوں نے اپنے سیاسی اور سماجی کیریئر کی عمارت کھڑی کی۔ جارجیا سدرن یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری امتیاز کے ساتھ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے ایموری یونیورسٹی سے امریکی ادب میں پی ایچ ڈی کی۔ علم سے ان کا تعلق ذاتی ترقی سے آگے بڑھ کر سماجی تبدیلی کا ذریعہ بن گیا۔ تدریس کے میدان میں داخل ہو کر انھوں نے نوجوان نسلوں کے ذہنوں میں سوچنے، سوال کرنے اور معاشرتی ذمہ داری کا شعور پیدا کیا۔ رینالڈز کمیونٹی کالج میں انھوں نے تدریس میں بہترین کارکردگی کے مرکز کی بنیاد رکھی جو ان کے عزم و وژن کی روشن مثال ہے۔
غزالہ ہاشمی کی سیاسی زندگی 2019 میں اس وقت شروع ہوئی جب انھوں نے ڈیموکریٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے ورجینیا کی سینیٹ نشست کے لیے انتخاب لڑا۔ ان کی یہ مہم ایک سیاسی مقابلہ تھی جو بعد میں تحریک بن گئی جس نے نسلی، مذہبی اور طبقاتی تفریق کے خلاف آواز اٹھائی۔ وہ ایک ایسی ریاست میں انتخاب لڑ رہی تھیں جسے ریپبلکن پارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا مگر ان کی سنجیدگی، خلوص اور عوامی خدمت کے جذبے نے حالات کا رخ بدل دیا۔ غیر متوقع طور پر انھوں نے کامیابی حاصل کی اور ورجینیا کی تاریخ میں پہلی مسلمان اور جنوبی ایشیائی خاتون سینیٹر بن گئیں۔ یہ کامیابی ان کے ساتھ ساتھ پوری مسلم اور بھارتی نژاد برادری کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔
سینیٹ میں غزالہ کی کارکردگی نے ثابت کیا کہ ان کی کامیابی اتفاق کا نتیجہ تھی ان کی محنت اور وژن کا ثمر تھی۔ انھیں تعلیم اور صحت کمیٹی کی چیئرپرسن نامزد کیا گیا، جہاں انھوں نے عوامی فلاح اور سماجی انصاف کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ ان کی قیادت میں ورجینیا میں تعلیمی معیار کی بہتری اور صحت عامہ کی فراہمی میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتی رہیں کہ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جو نسلوں کو بدل سکتا ہے۔ ان کی پالیسیوں نے متوسط اور نچلے طبقے کے خاندانوں کے لیے نئے مواقع پیدا کیے، اور وہ ایک ایسی آواز بن گئیں جو ہر پسے ہوئے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔
سنہ 2024 میں غزالہ ہاشمی نے ورجینیا کی لیفٹیننٹ گورنر کی نشست جیت کر ایک نیا باب رقم کیا۔ یہ کامیابی ان کے سیاسی سفر کا نقطۂ عروج تھی، لیکن ان کی اصل جیت عوام کے دلوں میں تھی۔ انھوں نے ریپبلکن امیدوار جان ریڈ کو شکست دے کر ایک ایسے نظام میں امید کی شمع روشن کی جو طویل عرصے سے مخصوص طبقات کے قبضے میں تھا۔ ان کی یہ جیت نے امریکی سیاست میں تنوع اور شمولیت کے تصور کو مزید مضبوط کیا۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ غزالہ ہاشمی نے ثابت کیا ہے کہ قیادت رنگ، مذہب یا نسل کی پابند ہے یہ تو کردار اور خدمت سے پروان چڑھتی ہے۔
غزالہ کی ذاتی زندگی بھی ان کی پیشہ ورانہ جدوجہد کی طرح قابلِ تقلید ہے۔ وہ اپنے شوہر اظہر رفیق کے ساتھ رچمنڈ میں آباد ہیں اور دو بیٹیوں کی والدہ ہیں جو تعلیم یافتہ اور خود مختار ہیں۔ اپنی خاندانی زندگی میں انھوں نے روایات اور جدید اقدار کا حسین امتزاج برقرار رکھا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی جڑوں سے جڑی رہیں اور حیدرآباد کی ثقافتی تہذیب پر فخر کرتی ہیں۔ اپنے والدین کی علمی وراثت اور اخلاقی تربیت نے انھیں ہر مقام پر مضبوط رکھا۔ انھوں نے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کو بھی ایک روشن مثال بنا دیا۔
دنیا بھر سے غزالہ ہاشمی کی جیت پر مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سابق امریکی صدر براک اوباما نے ان کی کامیابی کو روشن مستقبل کی امید قرار دیا۔ بھارتی صحافی رعنا ایوب اور تلنگانہ کے رہنما کے ٹی راما راؤ نے بھی ان کی کامیابی کو جنوبی ایشیائی برادری کے لیے تاریخی لمحہ کہا۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں نے انھیں حوصلے اور عزم کی علامت قرار دیا۔ یہ تائید ان کی شخصیت کے لیے تھی اس کے ساتھ ان اقدار کے لیے بھی تھی جو وہ پیش کرتی ہیں برابری، علم، اور انسانیت۔ ان کا نام اب اس فہرست میں شامل ہو چکا ہے جو دنیا کو بتاتی ہے کہ سیاست طاقت کی دوڑ نہیں ہے یہ خدمت خلق کا میدان ہے۔
غزالہ کی جیت ایک خاتون کی کامیابی کے ساتھ ساتھ اس عہد کی گواہی بھی ہے جس میں خواتین ہر میدان میں قیادت سنبھال رہی ہیں۔ انھوں نے ثابت کیا کہ مسلمان خواتین معاشرتی سطح پر ہی بلکہ یہ سیاسی قیادت میں بھی اپنی شناخت قائم کر سکتی ہیں۔ ان کی قیادت نے جنوبی ایشیائی نوجوانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ شناخت پر فخر کرنا اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے ڈٹے رہنا کامیابی کی کنجی ہے۔ انھوں نے سیاست کو شائستگی، اخلاق اور دیانت کے سانچے میں ڈھال کر ایک نئی مثال قائم کی ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنے گی۔
غزالہ ہاشمی کا یہ سفر خواتین کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ خواب چاہے کسی بھی سرزمین پر دیکھے جائیں اگر ان کے پیچھے جذبہ، علم اور سچائی ہو تو وہ ضرور حقیقت کا روپ دھارتے ہیں۔ ماشاءاللہ حیدرآباد کی مٹی سے اٹھنے والی یہ بیٹی آج امریکہ کی سیاسی فضا میں روشنی پھیلا رہی ہے۔ ان کی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ دنیا بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود کو بدلیں، ہمت کریں، اور سچائی پر قائم رہیں۔ غزالہ ہاشمی کا نام اب خاتون سیاستدان کا نہیں رہا ہے یہ تحریک کا استعارہ بن چکا ہے ایک ایسی تحریک جو برابری، خدمت اور انسانیت کے اصولوں پر قائم ہے۔ ان کی زندگی کی داستان اس یقین کی تجدید کرتی ہے کہ خوابوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔