امریکہ میں آج سیاست دو متضاد نظریات کی کشمکش میں گھری ہوئی ہے۔ ایک طرف ہیں زہران ممدانی جیسے سوشلسٹ رہنما، جو عوامی فلاح برابری اور انصاف کے قائل ہیں اور دوسری طرف صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ یہ جنگ صرف دو سیاستدانوں کے درمیان نہیں بلکہ دو فکری نظاموں کے تصادم کی علامت ہے ایک نظام دل پر، دوسرا ڈالر پر یقین رکھتا ہے۔
زہران ممدانی نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فورکلوزر پریوینشن کونسلر کے طور پر کام کیا۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ غریب خاندانوں کو قرض کی وجہ سے گھروں سے جبری بے دخلی سے بچایا جائے۔ یہی تجربہ بعد میں ان کے سوشلسٹ نظریے کی بنیاد بنا جو عوامی بہبود اور انسانی مساوات پر مبنی ہے۔
سیاست میں آنے سے پہلے زہران نے فن کی دنیا میں اپنی شناخت بنائی۔ وہ مسٹر کارڈیمم یعنی الائچی والا کے نام سے ریپ گانے گایا کرتے تھے۔ ان کے گانوں میں ظلم، غربت، نسل پرستی اور طبقاتی تفریق کے خلاف آواز بلند ہوتی تھی۔ ان کا گانا ’’نانی‘‘ بہت مشہور ہوا جس میں بھارتی مصنفہ مدھور جعفری نے ایک بےباک نانی کا کردار ادا کیا۔
زہران ممدانی کے ساتھ پاکستانی گلوکار علی سیٹھی نے بھی ایک گانے میں حصہ لیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں زہران نے کہا: فنکار دنیا کے کہانی نگار ہوتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ صرف برائے نام ہمارے ساتھ نہ ہوں بلکہ ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں۔
سن 2020 میں زہران ممدانی نے نیویارک ریاستی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور دس سال سے جیتنے والے سرمایہ دار طبقے کے امیدوار کو شکست دے کر نئی تاریخ رقم کی۔ وہ نیویارک اسمبلی میں منتخب ہونے والے پہلے جنوبی ایشیائی مسلمان مرد بنے۔
ان کی انتخابی مہم بنیادی طور پر ایک سوشلسٹ نظریہ پیش کرتی ہے جس میں انھوں نے شہر میں رہائش، ٹرانسپورٹ اور خوراک کو زیادہ منصفانہ بنانے کا وعدہ کیا۔ نیویارک کے جیکسن ہائٹس جیسے محلوں میں جہاں جنوبی ایشیائی اور لاطینی کمیونٹیز آباد ہیں ان کی مہم ایک عوامی تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ان کے لیے کام کرنے والے 40,000 سے زائد رضاکار ہندی، اردو، بنگلہ اور ہسپانوی زبانوں میں گھر گھر جا کر لوگوں کو ان کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ یہ نیویارک شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا انتخابی فیلڈ آپریشن تصور کیا جاتا ہے جس نے 10 لاکھ گھروں تک رسائی حاصل کی۔
ممدانی کے ناقدین خاص طور پر نیویارک ٹائمز کے ادارتی بورڈ کا کہنا ہے کہ ان کے منصوبے مالی طور پر ممکن نہیں۔ لیکن ممدانی کہتے ہیں کہ: میں جمہوری سوشلسٹ ہوں اور میرے نظریات صرف بجٹ کے اعداد و شمار نہیں بلکہ انسانی وقار پر مبنی ہیں۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ سرمایہ دارانہ نظام کے بڑے حامی ہیں۔ ان کے نزدیک امریکہ کی طاقت کاروبار، منڈی اور دولت کے تسلسل میں ہے۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ ریاست کو کاروبار میں کم مداخلت کرنی چاہیے تاکہ سرمایہ کار آزاد ہوں اور منافع کے ذریعے معیشت پھلے پھولے۔
ٹرمپ کے دور حکومت میں وائس آف امریکہ کو بند کیا گیا کئی ممالک پر بھاری ٹیرف عائد کیے گئے اور عالمی تجارت پر دباؤ بڑھ گیا۔ اگرچہ ملکی معیشت کے کچھ اشاریے بہتر دکھائی دیے، لیکن عالمی تعلقات میں تناؤ بڑھ گیا اور امریکہ کا نرم چہرہ دنیا سے اوجھل ہو گیا۔ امریکی عوام اب ایک ایسے دو راہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف دل والا نظام ہے جو برابری، انصاف اور انسانی خوشحالی کا وعدہ کرتا ہے، اور دوسری طرف ڈالر والا نظام جو منافع کو معیارِ کامیابی سمجھتا ہے۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مارکسی سوشلزم اور سرمایہ داری میں بنیادی فرق کیا ہے۔ مارکس کے مطابق پیداوار کے ذرائع عوامی ملکیت میں ہونے چاہییں تاکہ دولت منصفانہ طور پر تقسیم ہو۔ کیپٹلزم چند سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں طاقت مرکوز کرتا ہے، جو محنت کش طبقے کا استحصال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس سوشلزم پیداوار کی بنیاد انسانی ضرورت پر رکھتا ہے، نہ کہ منافع پر۔
مارکس کا خیال تھا کہ جب سرمایہ چند ہاتھوں میں جمع ہوتا ہے تو سماجی توازن ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر آج بھی دنیا کے کئی ممالک مثلاً سویڈن، ناروے اور فن لینڈ اپنے فلاحی نظام کی بنیاد رکھتے ہیں۔ وہاں سرمایہ داری تو موجود ہے مگر انسانی فلاح کو مقدم رکھا گیا ہے۔ یہی سوشل ڈیموکریسی کی کامیاب شکل ہے۔
ممدانی کے نظریات اسی انسان مرکز سوچ کے تسلسل ہیں۔ ان کے مطابق سیاست کا مقصد طاقت حاصل کرنا نہیں بلکہ خدمت کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں، "میں اقتدار کے لیے نہیں، عوام کی طاقت کے لیے آیا ہوں۔” ان کی مہم کے نعروں میں "ہاؤسنگ فار آل” اور "فئیر فوڈ فار ایوری ون” جیسے جملے عام ہیں۔
دوسری جانب ٹرمپ کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں سے امریکہ میں بے روزگاری کم ہوئی اور سٹاک مارکیٹ مستحکم ہوئی۔ مگر ناقدین کے مطابق یہ ترقی مصنوعی بے کیونکہ عام مزدور کے معیارِ زندگی میں بہتری نہیں آئی۔
اگر ممدانی کامیاب ہوتے ہیں تو یہ سوشلسٹ سوچ امریکہ کے لیے ایک نئے باب کا آغاز ہوگی۔ نیویارک جیسے شہر سے شروع ہونے والی عوامی فلاحی تحریک ممکن ہے کہ واشنگٹن تک پھیل جائے۔ لیکن اگر ٹرمپ کے نظریاتی پیروکار دوبارہ حکومت میں آتے ہیں تو سرمایہ داری کا تسلط مزید گہرا ہوگا، اور عوامی فلاح کے خواب ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔
اب اصل سوال یہ ہے کہ امریکہ کا مستقبل کس سمت جائے گا؟کیا وہ اسکینڈینیوین طرز کے فلاحی سوشلزم کی جانب بڑھے گا جہاں تعلیم، صحت اور رہائش کو بنیادی حق سمجھا جاتا ہے؟ یا وہ چین جیسے ریاستی سرمایہ داری نظام کی تقلید کرے گا جہاں دولت تو بڑھتی ہے مگر آزادی محدود ہوتی ہے یا پھر وہ ٹرمپ کے سخت گیر ماڈل کو اپنائے گا جہاں قوم پرستی اور منڈی کی قوتیں انسانی ضرورتوں پر غالب آ جاتی ہیں؟
دنیا کے کئی ملکوں کے تجربات بتاتے ہیں کہ محض دولت قوم کو عظیم نہیں بناتی، بلکہ انصاف، مساوات اور فلاح کا توازن ہی پائیدار ترقی کی ضمانت بنتا ہے۔ آج اگر امریکہ نے اپنی توجہ وال اسٹریٹ سے ہٹا کر عوام کی گلیوں کی طرف موڑی تو شاید وہ عظیم تر بن سکے۔ لیکن اگر اس نے دل کے بجائے ڈالر کا انتخاب کیا تو یہ سوشلزم اور کیپٹلزم کی گرم جنگ امریکہ کے اندرونی انتشار کو مزید بھڑکا دے گی۔