نوجوان، شناخت اور قوم کا آئینہ

کیا ہم واقعی جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں؟ ہمارے نوجوان دنیا کے ہر کونے سے جُڑے ہیں، ہر سوال کا جواب تلاش کر سکتے ہیں، ہر معلوماتی دریا کو عبور کر سکتے ہیں، مگر جب سوال اپنی قوم، اپنی تاریخ اور اپنی پہچان کے بارے میں آتا ہے تو ایک لمحے کے لیے رک جاتے ہیں، تو اس رویہ سے یہ حقیقت ایک سوال کی صورت میں سامنے آتی ہے: ہم صرف موجود ہیں یا ہم شعور کے ساتھ موجود ہیں؟

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ قوم کی تقدیر نوجوان کے شعور اور فکر سے جُڑی ہے، نہ کہ صرف شور و غوغا اور ہنگامہ آرائی سے۔ یہ جملہ آج بھی اپنی سچائی برقرار رکھے ہوئے ہے، اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں ہر نوجوان کو اپنی شناخت اور مقصد کے بارے میں سوچنا ضروری ہے۔

نوجوان آج کے دور میں علم کے ذخائر تک پہنچ سکتے ہیں، مگر فکری بیداری کی کمی اکثر ہمیں اندھیروں میں چھوڑ دیتی ہے، ہم ہر روز نئے خیالات، نئے رجحانات اور نئے راستوں سے جڑتے ہیں، مگر اپنے اندر کی سوچ، اپنے دل کی حقیقت اور قومی شعور کی پہچان کو نظر انداز کر دیتے ہیں، کیا یہ درست ہے کہ ہم دنیا کی ہر چیز جانتے ہوں، لیکن اپنی قوم کے مستقبل کے لیے فکر نہ کریں؟

کسی بھی معاشرے سے وابستہ نوجوان کی سب سے بڑی ذمہ داری صرف ذاتی کامیابی یا ذاتی خوشحالی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اپنی قوم اور معاشرت سے بھی ہے۔ یہ شعور نوجوان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی زندگی کے فیصلے سوچ سمجھ کر کرے، بلکہ اپنے اردگرد کے سماجی نظام کو بھی بہتر بنانے کی طرف قدم بڑھائے، تقلید کی عادت اب نوجوان کے لیے رکاوٹ بن چکی ہے؛ اصل عظمت اسی میں ہے کہ وہ خود سوچے، اپنے اصول قائم کرے اور ہر عمل میں فکری استقلال پیدا کرے، نوجوان کی سوچ اور کردار کا یہ امتزاج ہی وہ بنیاد ہے جس پر قوم کی تقدیر کا ڈھانچہ مضبوط ہوتا ہے۔

مولانا ندوی کے نزدیک یہ لازمی امر ہے کہ نوجوان کا شعور صرف ذاتی کامیابی کے لیے نہیں، بلکہ قومی اور سماجی بیداری کے لیے بھی ضروری ہے، جب نوجوان اپنے دل و دماغ کو حقیقت کی روشنی سے منور کرے، اپنی سوچ اور عمل کو معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ جوڑے، تو وہ صرف اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے قابل نہیں رہتا، بلکہ ایک مکمل معاشرتی تبدیلی کی بنیاد بھی رکھ دیتا ہے، یہی شعور نوجوان کو نہ صرف مضبوط بناتا ہے بلکہ ایک ایسا مستقبل تعمیر کرتا ہے جس میں قوم کے ہر فرد کی پہچان، عزت اور مقصد واضح اور روشن ہو۔

آج کے نوجوان کو چاہیے کہ وہ اپنی تاریخ اور ثقافت سے جڑے رہیں، تاکہ ماضی کے تجربات سے مستقبل کی رہنمائی حاصل ہو، علم کو صرف کتابوں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ عملی زندگی میں استعمال کریں، اخلاق اور معاشرتی کردار کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں، کیونکہ نوجوان کی پہچان صرف علم میں نہیں، بلکہ کردار اور عمل میں بھی ہے۔

آخر میں یہی کہنا مناسب ہوگا کہ نوجوان کی فکر جب قومی اور معاشرتی ذمہ داری کے ساتھ جُڑ جائے، تو ہر رکاوٹ پر فتح ممکن ہو جاتی ہے۔ مولانا ندوی کی نصیحت آج بھی ہم سب کے لیے رہنمائی ہے:

"قوم کی تقدیر نوجوان کے شعور اور فکر سے جُڑی ہے، نہ کہ صرف شور و غوغا سے”

اور یہی نوجوان کا اصل امتحان ہے: کیا ہم اپنے شعور سے قوم کی تقدیر بدلنے کی ہمت رکھتے ہیں، یا بس دیکھتے رہیں گے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے