چند روز قبل ایک سوشل میڈیا صارف کی پوسٹ نے مجھے خوش گوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے لکھا تھا: "سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون آج کل سب سے بڑے وقت خور بن گئے ہیں”۔ یہ بات اپنے انداز میں جتنی دلچسپ ہے، اپنے مفہوم میں اتنی ہی گہری اور معنی خیز ہے۔
آج کل عملاً دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کا استعمال بے ترتیب اور بے مقصد ہو چکا ہے۔ نہ کوئی وقت مقرر ہے، نہ ترتیب، نہ ہی کوئی واضح ہدف۔ فون مسلسل ہاتھ میں رہتا ہے اور جو کچھ بھی فیڈ میں آتا ہے، بلا سوچے سمجھے دیکھتے چلے جاتے ہیں۔ نہ وقت کے ضیاع کا احساس ہے، نہ فائدہ یا نقصان کا کوئی جائزہ، اور نہ ہی اس بات کا ادراک کہ یہ ہماری ذہنی و عملی زندگیوں پر کس قدر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔
آئیے، اس اہم مسئلے پر غور کریں اور اس پر بھی بات کریں کہ ہم سوشل میڈیا کے استعمال کو کیسے مناسب، مفید اور متوازن بنا سکتے ہیں۔
آج کا دور ڈیجیٹل دور ہے، اور اس دور کی دو ایسی چیزیں جو ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہیں، وہ ہیں سمارٹ فون اور سوشل میڈیا۔ یہ ایجادات جہاں ہمیں دنیا بھر سے جوڑتی ہیں، وہیں یہ ہمارے قیمتی وقت کی سب سے بڑی دشمن بھی بن چکی ہیں۔ اگر ان کا استعمال محتاط اور بامقصد نہ کیا جائے تو یہ وقت کے علاوہ ہماری توجہ، تخلیقی صلاحیتوں اور حقیقی تعلقات کو بھی نگل جاتی ہیں۔
سمارٹ فون اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی تیز رفتار ترقی نے ہمیں بے پناہ معلومات اور رابطوں کی دنیا سے روشناس کرایا ہے۔ یہ وہ وسائل ہیں جن کے ذریعے ہم منٹوں میں دنیا بھر کی خبروں سے آگاہ ہو سکتے ہیں، علم کے نئے دروازے کھول سکتے ہیں اور اپنے کاروبار کو نت نئی بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ درحقیقت، یہ ٹولز اس وقت مفید ثابت ہوتے ہیں جب انہیں ایک ذریعہ سمجھ کر استعمال کیا جائے نہ کہ مقصد بنا لیا جائے۔
بدقسمتی سے، آج کا عام صارف ان ڈیوائسز کو مقصد کی بجائے محض وقت گزاری کا سامان سمجھتا ہے۔ بے مقصد اسکرالنگ، ویڈیوز دیکھتے رہنے اور فضول چیٹنگ میں گھنٹوں ضائع کر دینا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔ ہم میں سے اکثر یہ محسوس کیے بغیر کہ وقت کہاں گزر گیا، "صرف پانچ منٹ” کے چکر میں گھنٹوں ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ وقت کے ضیاع کا وہ جدید روپ ہے جس سے ہم بے خبر ہیں۔
سوشل میڈیا کے غیر معتدل استعمال کے نقصانات صرف وقت تک محدود نہیں۔ ذہنی صحت پر بھی اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلسل دوسروں کی چمک دمک والی زندگیوں کو دیکھنے سے احساس کمتری، بے چینی اور ڈپریشن جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ہم اپنی حقیقی زندگی کے مسائل اور خوشیوں کو نظر انداز کر کے ایک بالکل مصنوعی دنیا میں کھو کر رہ گئے ہیں۔
جسمانی صحت کے حوالے سے بھی یہ کوئی کم تباہ کن علت ثابت نہیں ہو رہی۔ آنکھوں پر دباؤ، دماغ پر زور، نیند کے مسائل (کیونکہ نیلی روشنی آرام سے متعلق انسانی ہارمون کو متاثر کرتی ہے) اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جسمانی سرگرمیوں کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے یہ سب ایک طرح کے اس "ڈیجیٹل غلامی” کے تحفے ہیں۔ ہماری نئی نسل، جو کھیل کے میدانوں کی بجائے اسکرینز کے سامنے پل رہی ہے، اور پل کیا رہی ہے باقاعدہ ڈھا رہی ہے۔ وہ ان مسائل کا سب سے زیادہ شکار ہے۔
سماجی تعلقات کی بربادی ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ آج کا منظر نامہ یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں سب لوگ موجود ہیں مگر ہر کوئی اپنے فون میں ایسا مگن ہے کہ اسے دوسرے کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ رشتوں کی گرمجوشی، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات چیت کا مزا، اور گھریلو محفلیں ہر گزرتے دن کے ساتھ دم توڑ رہی ہیں۔ ہم کچھ چیزوں سے آگاہ تو ہوگئے ہیں، لیکن حقیقی جذباتی رابطوں اور تعلقات سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ اس بات کا احساس تک نہیں۔
بڑوں اور جوانوں کے علاوہ بچے بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا سے غلط طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ ہونہار طالب علم جو کبھی پڑھائی میں بہت اچھے ہوتے تھے اب ہر وقت موبائل کے ساتھ مشغول نظر آ رہے ہیں۔ وہ بچے اور جوان جو کبھی پڑھائی کے دوران اپنے من پسند کالجوں میں داخلے کے حوالے سوچ بچار اور دوڑ دھوپ کر رہے تھے انہیں اب طرح طرح کے آن لائن گیمز کے چسکے لگ گئے ہیں۔ ابتدا میں وہ اسے محض تفریح سمجھتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ وہ گیم کے ایڈکٹ ہو جاتے ہیں۔ گھنٹوں اسکرین کے سامنے بیٹھے رہنا اب معمول ہے۔ نتیجہ؟ بچوں کی پڑھائی یکسر متاثر ہو رہی ہے، تخلیقی سوچ ختم ہو رہی ہے، حصول علم کا جذبہ ٹھنڈا پڑ رہا ہے جو آخر کار تعلیمی زوال کا سبب بن رہا ہے۔
ہم اگر اعتدال کے ساتھ اور مقصد کے مطابق ان ٹیکنالوجیز کو استعمال کریں تو یہ ہماری ترقی کا زینہ بن سکتی ہیں۔ آن لائن کورسز کے ذریعے تعلیم، کاروبار کو آن لائن فروغ دینا، مفید معلومات تک رسائی اور دنیا بھر کے ماہرین سے رابطہ وغیرہ یہ ساری چیزیں سوشل میڈیا کے مثبت پہلو ہیں۔ سوال محض استعمال کا نہیں، بلکہ کیسے استعمال کا ہے۔ ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے ڈیجیٹل بیلنس قائم کرنا ہوگا۔ اوقات کار مقرر کریں، سوشل میڈیا پر جانے کا ایک مقصد ہو، اور اسے دن کا سب سے اہم کام نہ سمجھا جائے۔ فون کو بیڈ روم سے باہر رکھنا، بغیر فون کے خاندانی اوقات مختص کرنا، اور حقیقی دنیا کے شوق پیدا کرنا اس سمت میں اہم اقدامات ہیں۔
یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ سوشل میڈیا اور سمارٹ فون خود میں برے نہیں ہیں۔ یہ ہمارے اختیار میں ہیں۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں اپنے لیے فائدے کا ذریعہ بنائیں یا پھر نقصان کا سبب؟۔ ہمارے لیے سب سے بہترین طرزِ عمل یہ ہے کہ ہم وقت کی قدر کرنا سیکھیں، اپنے مقاصد کو واضح کریں، اور ان جدید ایجادات کو اپنی ترقی اور بہتری کے لیے استعمال کریں۔ کیونکہ وقت وہ واحد سرمایہ ہے جو واپس نہیں آتا۔