عرفان صدیقی کا سحر

میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ میں نے لگاتار بیس سال عرفان صدیقی کو پڑھا ہے۔ ان کے کالم ضربِ مومن، ہفت روزہ القلم اور ساتھ ہی روزنامہ جنگ میں شائع ہوتے تھے تو ہمارا طالبِ علمی کا زمانہ تھا۔ اُن دنوں ہم لفظوں کے عاشق تھے اور عرفان صدیقی کی تحریری دنیا ایک جادوئی کائنات لگتی تھی۔ پھر 2010 سے 2020 تک ان کے کالم آن لائن پڑھتا رہا۔

پورے بیس سال میں صدیقی مرحوم کے اس فکری اور ادبی سحر سے کبھی نکل نہیں سکا۔

البتہ 2020 کے بعد ان کو پڑھنا کم کر دیا۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی، ان میں رفتہ رفتہ سیاسی تعصب نے جگہ بنا لی تھی۔ وہ صرف ن لیگ کی حمایت کرتے تو بات ایک حد تک قابلِ فہم تھی، مگر پی ٹی آئی کے خلاف لکھتے لکھتے وہ اس قدر دور نکل جاتے کہ ان کی وہ شگفتہ، متوازن، اور سنجیدہ تحریر جس سے دل بہلتا اور ذہن جَھلکتا، اب بوجھل محسوس ہونے لگتی۔

2018 کے بعد کئی بار ایسا ہوا کہ میں ان کا کالم شروع کرتا مگر مکمل نہ کر پاتا۔ ورنہ تو صدیقی صاحب کے کالم وہ ہوتے جنہیں میں پہلی فرصت میں پڑھ لیتا تھا اور خوب مزے لیتا تھا۔

2000 سے 2025 تک کے ان پچیس برسوں میں اگر میں امانتداری سے کہوں تو صرف دو کالم نگار ایسے ہیں جنہیں میں بلاناغہ پڑھ رہا ہوں۔ باقی اکثر کالم نگاروں کے وہ کالم پڑھتا ہوں جو کسی خاص ٹاپک پر ہوں تو پڑھ لیتا ہوں ان میں صدیقی صاحب مرحوم بھی تھے۔ صدیقی صاحب کے کالموں کا مجموعہ "نقشِ خیال” آج بھی میری ذاتی لائبریری کی زینت ہے۔

لاریب! عرفان صدیقی ایک نفیس، سنجیدہ، اور شائستہ انسان تھے۔ وہاں چلے گئے جہاں ہم سب نے جانا ہے۔

اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنی رحمتِ بے پایاں میں جگہ دے، اُن کے درجات بلند فرمائے، اور ان کی فکری و ادبی وراثت کو قائم و دائم رکھے۔

مجھے ان کے کالموں سے صرف فکر و نظر نہیں، بلکہ اردو ادب کا ذوق بھی ملا۔ وہ کالم نویسی میں اسلوب، زبان، اور آہنگ کے وہ امام تھے جن سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔ اردو کالم نگاری میں ان کا نام ہمیشہ صفِ اوّل میں رہے گا، اور رہے گا بھی کیوں نہ، ان کی تحریر میں دل کی نرمی، دماغ کی گرمی، اور لفظوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔

اللہ ان کے درجات بلند کرے، حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے