بچوں میں بگاڑ کے اسباب اور اس کا علاج

بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اور اس کا مستقبل ہوتے ہیں۔ ان کی صحیح تربیت ہی ایک مہذب اور صالح معاشرے کی بنیاد رکھتی ہے، جبکہ تربیت کی کمی اور غلط ماحول انہیں بگاڑ کی طرف لے جاتا ہے۔ آج کے دور میں اولاد کی بگڑی ہوئی عادات، بے راہ روی اور اخلاقی زوال کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ذیل میں ان اہم اسباب اور ان کے ممکنہ علاج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

غربت اور افلاس:

والدین اگر بھوک اور بیروزگاری کا شکار ہوں گے، تو بچوں کو گھر میں سہولیات نہیں ملیں گی۔ لباس، خوراک اور علاج — جو ضروریاتِ زندگی اور بنیادی حقوق میں شامل ہیں — ان کی کمی بگاڑ پیدا کرتی ہے۔
مشاہدہ یہ ہے کہ غریب بیچارہ پورا دن مزدوری کرتا ہے، بچوں کے پیٹ پالنے کی فکر کرتا ہے۔ اسے دن بھر میں اولاد کی تعلیم و تربیت کا وقت کہاں میسر آئے گا؟ رات کو تھکا ماندہ گھر آتا ہے تو کھانا کھاکر سو جاتا ہے۔ اس لیے گھر میں بیٹھی خواتین پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی نگرانی کریں، انہیں وقت پر مدرسے اور اسکول بھیجیں، ورنہ ایسے ہی بچے تعلیم سے محروم رہ کر فسادات مچاتے ہیں۔
اس لیے ایک والد کو چاہیے کہ رزقِ حلال کی تلاش کے ساتھ ساتھ اولاد کی تربیت کی فکر بھی کرے، اور اپنی اولاد کی ہر ممکن راحت اور ضروریاتِ زندگی کا پورا پورا خیال رکھے۔

آج کے دور میں تعلیم بھی مہنگی کر دی گئی ہے۔ جب غریب گھر کا چولہا نہ جلا سکے تو تعلیم کہاں سے دلائے گا، کتابیں کہاں سے لائے گا؟ اس لیے معاشرے میں ایسے نیک لوگ ہونے چاہئیں جو ان کے لیے بہترین اور معیاری تعلیم کا انتظام کر سکیں۔

حدیثِ شریف میں آتا ہے:
“کاد الفقر أن یکون کفرا”
(قریب ہے کہ غربت تمہیں کفر سے دوچار کر دے۔)
دیکھیے! غربت کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔ اسی لیے غریب معاشرے میں جرائم کا عام فسانہ ہے۔ والدین پر بھاری ذمہ داری ہے، مگر ریاست اور اہلِ خیر حضرات پر بھی یہ فریضہ عائد ہوتا ہے۔

ماں باپ کے لڑائی جھگڑے:

اولاد کے بگاڑ کا بڑا سبب یہ ہے کہ گھر میں اکثر و بیشتر ماں باپ کی لڑائی چلتی رہتی ہے۔ بچے نے شفقت اور پیار دیکھا نہیں، اس کی نشوونما ہی نفرت کے ماحول میں ہوئی، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اس ماحول اور اپنے والدین سے بدکنے لگتا ہے، اور اس میں بری عادات و فاسد اخلاق خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔
اس لیے اولاد کے سامنے لڑنے جھگڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ان کے سامنے ایک دوسرے سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں، بیوی کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں، اور بچوں کے سامنے شائستگی سے بات کریں۔
حدیثِ شریف میں ہے:
خيركم خيركم لأهله
تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو

فراغت:

فراغت بچوں کو سب سے زیادہ بگاڑتی ہے، جس کی وجہ سے وہ لہو و لعب میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور آوارگی کو پسند کرتے ہیں۔
ضروری ہے کہ بچوں کو تعلیمی اور جسمانی طور پر مصروف رکھا جائے۔ اسباق، ہوم ورک اور ورزش کی پابندی کرائی جائے۔ یہ چیزیں تربیت میں بھی مفید ہیں اور ذہنی نشوونما کے لیے بھی سودمند۔

نماز کی تربیت، فنون سکھانے پر توجہ، اور ہنرکاری میں دلچسپی دلانا بھی ضروری ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ بچوں کو گھڑ سواری اور اسلحہ کی تربیت دی جائے۔ اسی طرح بچوں کو سیر و سیاحت میں ساتھ لے جانا بھی فائدہ سے خالی نہیں۔

بری صحبت:

بری صحبت بچوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ اخلاق، عقیدہ، ذہانت — سب اس کی وجہ سے برباد ہو جاتے ہیں۔
بچوں میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک بڑی وجہ یہی سامنے آتی ہے کہ غلط صحبت انہیں برے کاموں میں لگا دیتی ہے۔

اس لیے ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھیں ان کے بچوں کے دوست کیسے ہیں، وہ کہاں جاتے ہیں اور کن کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں، ان کے اخلاق درست ہیں یا نہیں، ذہنی سکون میسر ہے یا نہیں۔

اگر بگاڑ یا خرابی نظر آئے تو فوراً اس کے اسباب پر غور کریں اور ان کے دوستوں پر نظر رکھیں، انہیں برے دوستوں سے بچائیں، اور بااخلاق و نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین کریں۔
قرآنِ مجید میں سورۂ فرقان میں ارشاد ہے:

وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُولُ یَالَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیْلًا
یَاوَیْلَتٰی لَیْتَنِی لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا
لَقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِی، وَكَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا (الفرقان 27-28)

اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا: کاش میں نے رسول کا ساتھ اختیار کر لیا ہوتا۔ ہائے میری بربادی! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے مجھے نصیحت کے بعد گمراہ کر دیا، اور شیطان تو انسان کا ہمیشہ چھوڑ دینے والا ہے۔
اسی طرح سورۂ زخرف میں فرمایا گیا:
الْأَخِلَّاءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِینَ (زخرف 167)
اس دن سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، سوائے متقین کے۔

والدین کی بے جا سختی اور ناروا سلوک:

بات بات پر ڈانٹنا، ہر وقت سختی اور شقاوت سے پیش آنا بچوں کو بگاڑ دیتا اور والدین سے دور کر دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ گناہوں کی طرف دھکیلے جاتے ہیں اور فاسق لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
والدین سے انہیں خوف آتا ہے، کیونکہ انہوں نے کبھی پیار و محبت دیکھی ہی نہیں۔ حالانکہ اسلام تربیت میں پیار و شفقت اور اخلاق کی تعلیم دیتا ہے۔
قرآنِ پاک میں رسالتِ مآب ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ، وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (آل عمران 159)
اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر اے پیغمبر! تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے منتشر ہو جاتے۔
اور مزید ارشاد ہے:
وَالْكَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ، وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ (آل عمران 134)
اور جو غصے کو پی جاتے ہیں، لوگوں کو معاف کرتے ہیں، اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

انٹرنیٹ:

جدید دور میں نوجوانوں کی دینی، اخلاقی اور سماجی اقدار کو برباد کرنے والی سب سے بڑی بلا انٹرنیٹ ہے۔ اس نے دینی و دنیاوی طور پر بچوں کو اپاہج کر دیا ہے۔ گناہ اب آسان اور سستا ہو گیا ہے۔
رپورٹوں کے مطابق لاکھوں بچے بے راہ روی کا شکار ہیں۔ چھوٹے بچوں کو موبائل دلانے کی کیا ضرورت اور فائدہ؟ وہ پورا دن سکرین کے سامنے بیٹھ کر دنیا و آخرت دونوں کا خسارہ کر رہے ہیں۔ تعلیم گئی، صلاحیتیں اکارت گئیں، بس موبائل کے نشے میں مبتلا ہیں۔
اگر موبائل دینا ناگزیر ہے تو ضروری ہے کہ بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال پر والدین کی سخت نظر ہو۔
قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
“یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِیكُمْ نَارًا” (الحریم 6)
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ۔

بیروزگاری اور تعلیم کی ناپیدی:

تعلیم کے مواقع فراہم نہ کرنا اور روزگار کے وسائل کی کمی بھی نوجوانوں کو گمراہی اور گناہوں میں مبتلا کرتی ہے۔ انہیں تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ مصروف رہیں، فتنوں سے دور اور حلال روزی کے طلبگار بنیں۔ اس کے نیک اثرات پورے معاشرے پر پڑیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے