پندرہویں پنج سالہ منصوبہ (2026-2030) کا دور چین کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب چین ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہو نے والی نئی انقلابی تبدیلیوں اور صنعتوں کے بدلنے کے عمل سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس دور میں چین اعلیٰ معیار کی ترقی حاصل کر سکتا ہے۔ چین کی قیادت کا ماننا ہے کہ یہ دور نئی ٹیکنالوجیز اور صنعتی انقلاب کا دور ہے۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے چین اپنی ترقی کو نئی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔
اس سفر میں مصنوعی ذہانت (AI) کو حقیقی معیشت کے ساتھ ملانا انتہائی ضروری ہے۔ صرف ذہین صنعتوں کی ترقی سے ہی نئی قسم کی پیداواری صلاحیتیں تیزی سے پروان چڑھ سکتی ہیں۔ یہ نئی صلاحیتیں ملک کی مجموعی پیداواری قوت اور عالمی مقابلے کی اہلیت کو مزید مضبوط بنائیں گی۔ "مصنوعی ذہانت پلس” کے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجیز کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ اس سے نہ صرف پیداواری نظاموں کو یکسر بدلا جا سکے گا بلکہ معاشی ترقی کے نئے ذرائع بھی پیدا ہوں گے۔
نئی پیداواری قوت کی بنیاد:
مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی نئی پیداواری قوت کا ایک بنیادی حصہ ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ماڈلز، کمپیوٹنگ کی طاقت اور ڈیٹا جیسے بنیادی اجزاء کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے پرانی پیداواری صلاحیتوں کی ساخت اور کام کرنے کے معیار کو بدل رہے ہیں ۔فی الحال، چین میں بننے والے بڑے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اوپن سورس ماڈلز کی کارکردگی بھی عالمی معیار کے برابر پہنچ چکی ہے۔ تاہم، کمپیوٹنگ پاور کے شعبے میں ملک بھر میں ایک مربوط نظام کی ضرورت ہے تاکہ اس شعبے کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا جا سکے اور اس کی کارکردگی کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے پورے ملک کی کمپیوٹنگ طاقت کو یکجا کرنا ہوگا تاکہ مختلف خطوں کے کمپیوٹنگ وسائل میں ہم آہنگی پیدا ہو اور انہیں مؤثر طریقے سے تقسیم کیا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ معیار کے ڈیٹا سیٹس تیار کرنے، ڈیٹا کے ذخیروں کو منظم کرنے اور ڈیٹا کی حفاظت اور اس کی آسان گردش کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ کمپیوٹنگ پاور کو مضبوط بنا کر اور ڈیٹا کے ماحول کو بہتر کر کے ہی مصنوعی ذہانت کی نئی پیداواری صلاحیتوں کو مکمل تقویت مل سکے گی۔
ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا:
نئی پیداواری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے مصنوعی ذہانت کی مکمل صلاحیتوں کو استعمال کرنا تب ہی ممکن ہوگا جب اس راستے میں موجود نظامی رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے انتظامی نظام میں لچک پیدا کرنی ہوگی۔ "ریگولیٹری سینڈ باکس” اور جامع پالیسیوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لیے ایک سازگار ماحول بنانا ہوگا۔مقامی سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کی ترقی کی رفتار تیز کرنی ہوگی۔ ٹیکنالوجی اور صنعت کے باہمی تعاون کو نئی شکل دینی ہوگی تاکہ حقیقی اختراعات اور انقلابی ٹیکنالوجیکل پیشرفتوں کے لیے ایک موافق نظام قائم ہو سکے۔ اس طرح نظامی فوائد براہ راست مصنوعی ذہانت کی نئی پیداواری قوتوں میں تبدیل ہو سکیں گے۔
مربوط ماحولیاتی نظام اور عالمی قیادت:
"AI پلس” کے گہرے اثرات ایک مربوط ماحولیاتی نظام کی تعمیر اور عالمی قیادت قائم کرنے میں نظر آئیں گے۔ پہلا پہلو یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو صرف ایک ٹیکنالوجی سمجھنے کے بجائے اسے سائنسی تحقیق، صنعتی ترقی، عوامی خدمات، سماجی حکمرانی اور بین الاقوامی تعاون جیسے شعبوں میں پوری طرح سے شامل کیا جائے۔”AI پلس” سے نئی صنعتی شکلیں اور کاروباری ماڈل جنم لینے چاہئیں۔ ہمیں ایک ایسا ماحولیاتی نظام تعمیر کرنا چاہیے جہاں ٹیکنالوجی، صنعت اور سماجی اقدار ایک دوسرے کی تکمیل کریں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ٹیکنالوجی اور معیارات کی فراہمی کے ذریعے عالمی اثر و رسوخ رکھنے والے معیارات قائم کیے جائیں۔ ساتھ ہی عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں بھی فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
دو طرفہ اور کثیر الجہتی تعاون کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی اپنی صلاحیتیں بڑھانے میں مدد کرنی ہوگی۔ اس سے "ڈیجیٹل خلیج” یعنی ڈیجیٹل فرق کو باٹنے میں مدد ملے گی اور عالمی ذہانت معیشت کے لیے چین کی حکمت عملی سامنے آئے گی۔
حالیہ اقدامات اور مستقبل کے منصوبے:
حال ہی میں اپیک کے 32ویں اجلاس میں صدر شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ اس وقت ٹیکنالوجیکل انقلاب اور صنعتی تبدیلی کا ایک نیا دور پروان چڑھ رہا ہے۔ انہوں نے ڈیجیٹل اور AI ٹیکنالوجی کے استعمال کو مضبوط بنانے کی تجویز دی۔ چین نے ایشیاء پیسیفک خطے میں ڈیجیٹل اور ذہانت کے فرق کو کم کرنے کے لیے عالمی مصنوعی ذہانت تعاون تنظیم قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔چین مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اپنی قیادت کو مضبوط بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے۔ ملک مصنوعی ذہانت کے قومی اختراعی نظام کی تعمیر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اس میں بیجنگ، شنگھائی اور گوانگڈونگ-ہانگ کانگ-مکاؤ گریٹر بے ایریا میں مصنوعی ذہانت کے کلاسٹرز تیار کرنا شامل ہے۔ساتھ ہی قومی سطح پر مصنوعی ذہانت کی لیبارٹریز اور تحقیقی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔ انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے قومی ڈیٹا شیئرنگ پلیٹ فارم، کلاؤڈ کمپیوٹنگ سہولیات اور جدید ترین نیٹ ورکس نصب کرنے پر کام جاری ہے۔ اعلیٰ ترین صلاحیتوں والے افراد کی تربیت کو ترجیح دی جا رہی ہے، جبکہ جامعات میں نئے شعبے متعارف کرانا، خصوصی تربیتی پروگرام شروع کرنا اور بین الاقوامی ماہرین کی خدمات حاصل کرنا بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات اور قوانین کے مربوط فریم ورک پر کام کیا جا رہا ہے تاکہ ڈیٹا کی پرائیویسی اور سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔
عملی اطلاق اور عالمی تعاون:
چین میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے عملی اطلاق اور بین الاقوامی تعاون کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی محاذ پر چین "بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبے میں شامل ممالک کے ساتھ شراکت داریاں بڑھا رہا ہے۔ چین عالمی کانفرنسوں کی میزبانی کر رہا ہے اور بین الاقوامی معیارات کی تشکیل میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ اقدامات چین کے اس عزم کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں قیادت کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔