روزانہ کی بنیاد پر اندھیری صبح کی پہلی روشنی ابھی دروازوں سے ٹکراتی نہیں ہوتی کہ رضیہ کچن میں چولہا جلا بیٹھتی ہے۔ صبح سویرے سویرے مجھے یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ دھویں کی ہلکی کالی سی لکیر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آسمان کی جانب کوئی خاموش فریاد بھیج رہی ہو۔ یخ بستہ پانی اور آٹے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے سوچوں میں گم ان کے ذہن میں بس ایک ہی خیال گردش کر رہی ہوں گی کہ آج بھی وہی ہوگا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ مگر میرے دل کے کسی کونے میں شاید ایک چھوٹی سی سرگوشی جنم لے رہی تھی کیا کبھی اس گھر کی میز پر اس کی باری بھی وقت پر آ سکتی ہے؟
اگر ہم آس پاس نظر دوڑائیں تو ہر طرف یہی سین ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جیسے ہی صبح جگمگانے لگتی ہے پراٹھوں کی مزیدار خوشبو آنگن کو مہکا دیتی ہے۔ شوہر میاں گرم گرم پراٹھے مکھن، چنے، پائے کے ساتھ کھانے سے لطف اندوز ہوتا ہیں بچے جیم بریڈ، انڈوں اور ملائی دار دہی پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور رضیہ جیسی ہر گھر کی خاتون خاموشی سے سب کے سامنے پلیٹیں رکھتی رہتی ہے۔ جب سب پیٹ بھر کر دسترخوان چھوڑ دیتے ہیں تو اس کے سامنے وہی بچی کچی چائے رہ جاتی ہے جس کا رنگ کالا پڑ چکا ہوتا ہے اور پراٹھے کے وہ ٹکڑے جن پر جمی ہوئی چکنائی اس کی قسمت پر مہر لگا دیتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ان لاکھوں عورتوں کا آئینہ ہے جن کی محنت و مشقت تو ہر صورت پر گھر میں پکتی ہے مگر ان کی اپنی بھوک کبھی پوری طرح نہیں مٹتی۔
جیسے کہ یہ نظام وراثت میں ملا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں، میں نے اپنی ماں کو دیکھا ہے، نانی جان سے سیکھا ہے اور اب خود بھی یہ سب دہرا رہی ہوں۔ سب سے پہلے اٹھنا، سب کو کھلانا، سب کے حصے باقی رکھنا اور آخر میں صرف اتنی غذا پر قناعت کرنا جو وجود اور سانس کا رشتہ برقرار رکھے۔ سوال وہیں موجود ہے کہ کیا گھر کی یہ تقسیم واقعی عورت کی مرضی کا نتیجہ ہے؟ یا یہ ایک صدیوں پرانی جکڑ بندی ہے جس نے اسے اپنے ہی گھر میں پیچھے بٹھا دیا ہے؟
کھانے کی اس کھیل میں عورت کا جسم سب سے گہرا احتجاج کرتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جب عورت باقیوں کے بچے ٹکڑوں پر گزارا کرتی ہے تو اس کے جسم کی بنیادیں ہی کمزور ہونے لگتی ہیں مثلاً، فولاد کی کمی، کیلشیم کا فقدان، پروٹین کی قلت۔ ہڈیاں بھربھری، خون کم، توانائی مسلسل کم ہوتی جاتی ہے۔ یوں روزمرہ کے معمولات بھی ایک پہاڑ محسوس ہونے لگتے ہیں۔
صنفی امتیاز کی جڑیں موجودہ خاندانی فیصلوں سے پہلے صدیوں پرانی سوچ میں دفن ہیں۔ آج بھی گوشت، دیسی گھی، دودھ اور انڈے، فروٹ زیادہ تر مردوں کے حصے میں آتے ہیں اور عورت کو نرم یا کم غذائیت والی خوراک پر راضی رہنا پڑتا ہے۔ اس خیال سے کہ مرد کاروبار یا زیادہ محنت ومشقت کرتا ہے اور اسے فلادی طاقت چاہیے عورت کو ہمیشہ قربانی کا استعارہ بنا دیتا ہے۔
اسی طرح فیصلہ سازی کی اس جنگ میں باورچی خانہ بظاہر عورت کا میدان لگتا ہے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ عورت کو دوسروں کو پہلے کھلانے کی تربیت محبت یا عظمت کے نام پر دی جاتی ہے، اصل میں یہ ایک سماجی ذہن سازی ہے جو اسے اپنی خواہشات اور ضرورتوں کو ثانوی ماننے پر مجبور کرتی ہے۔ جب گھریلو معاشی ڈور مرد کے ہاتھوں میں ہو تو وہی طے کرتا ہے کہ آج گھر میں کیا پکے گا کون پہلے کھائے گا اور کس کو کتنا ملے گا۔ اس میں عورت کار پرداز رہ جاتی ہے فیصلہ ساز نہیں۔
دوسری طرف متعدد تحقیقی مطالعات اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستانی خواتین میں غذائی کمی عام ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات انتہائی شدید ہیں۔ اور قومی غذائی سروے 2018 کے مطابق 15 سے 49 سال کی 42 فیصد خواتین انیمیا کا شکار ہیں جب کہ 34 فیصد میں آئرن کی کمی پائی گئی۔ اسی طرح یونیسیف کی رپورٹ بتاتی ہے کہ صرف اور صرف 27 فیصد خواتین اپنی بنیادی غذائی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 56 فیصد خواتین میں آئرن، 73 فیصد میں وٹامن ڈی اور 39 فیصد میں وٹامن اے کی کمی موجود ہے جس کا نتیجہ عمر کے لحاظ سے کم یا زیادہ وزن اور صحت کے مسائل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ وہی بد قسمت عورتیں ہیں جو اپنے گھروں میں ہر روز گوشت، ڈالیں، مچھلیاں، طاقت سے بھرپور سبزیاں، دہی، لسی اور کھانے تیار کرتی ہیں اور سب سے کم غذائیت خود حاصل کرتی ہیں۔
اسی طرح غذائی تقسیم میں یہ صنفی عدم مساوات کو غربت کا نتیجہ کہنا ظلم ہے یہ تو سماجی رویوں کی پیداوار ہے۔ یہ بھی انتہائی افسوسناک خبر ہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں کی گئی تحقیق کے مطابق 43 فیصد خواتین نے اعتراف کیا ہے کہ گھروں میں مردوں کو بہتر سے بہتر خوراک دی جاتی ہے۔ بخدا سب سے دل دہلا دینے والا رپورٹ تھا کہ 56 فیصد نے بتایا کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر خوب ترجیح ملتی ہے۔ 62 فیصد کے مطابق نوجوان خواتین اور لڑکیاں کم غذائیت کے باعث بیمار پڑتی ہیں۔ اس تحقیق نے واضح کیا ہے کہ گھریلو آمدنی اور اشیائے خورد و نوش کی تقسیم اور صنفی ناہمواری وہ بنیادی عناصر ہیں جو عورتوں کی غذائی حالت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ یوں معاشرے کو یہ حقیقت تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ چپ چاپ بھوک ایک فرد کا مسئلہ نہیں ہے پورے معاشرتی ڈھانچے کی کمزوری کا عکاس ہے۔ جو تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک عورت کو اپنے حصے کی صحت مند خوراک اور خود اپنے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں مل جاتا ہے۔