لوک میلہ 2025: خیبر پختونخوا کلچرل نائٹ اور صوبے کا مسلسل چوتھی بار بہترین پویلین کی جیت کا اعزاز

میں پہلے دن سے دو پروگراموں کا شدت سے منتظر تھا ایک بلوچستان کے پشتون اور بلوچ مشترکہ کلچر کی موسیقی دوسرا خیبر پختونخوا کلچرل نائٹ۔ اس بار میرا جوش اس لیے بھی بڑھ گیا کیونکہ "نوے ژوند ادبی ثقافتی اور فلاحی تنظیم اسلام آباد” کے سینئر وائس چیئرمین اور باصلاحیت گلوکار راج خان مروت بھی اسٹیج پر پرفارم کر رہے تھے۔اس سال بھی پاکستان کے تمام صوبوں کے پویلین معیار، ترتیب، ہنری کام، دستکاری، ثقافتی تنوع اور مجموعی پیشکش کے لحاظ سے جانچے گئے۔ ماہر جج پینل کے فیصلے کے مطابق خیبرپختونخوا دوبارہ بہترین پویلین کا حق دار قرار پایا۔ یہ اعزاز صوبے کو مسلسل چوتھے سال دیا گیا جو ثقافتی میلوں کی تاریخ میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ جو صوبے کے لیے فخر کا لمحہ ہے۔

میں نے دیکھا کہ کہ لوک ورثہ کا دس روزہ میلہ پاکستان کے تمام صوبوں کی رنگینی، زبانیں، روایتی لباس، کھانے اور فنون کو پیش کرتا ہے۔ میں ہر سال اس میلے میں جاتا ہوں کیونکہ یہاں محسوس ہوتا ہے کہ تمام ثقافتیں ایک جگہ زندہ ہیں۔ موسیقی کے ساز، لوک رقص، چائے کی خوشبو، ہلکی ہوا اور لوگوں کی خوشیاں ہر بار کچھ نیا دیکھنے اور سیکھنے کو ملتا ہے۔ میرے خیال میں لوک میلہ کی ہر رات کی اصل دلکشی صوبوں کی موسیقی پروگرام میں ہوتی ہے جس صوبے کی بھی کلچرل نائٹ مقرر ہوتی ہے۔ اس صوبے کے ساز، رقص اور موسیقی کا مجموعہ یادیں دل میں زندہ رکھتا ہے۔

پہلے موسیقی کے حوالے سے پات ہو جائے تو پھر ایوارڈ پر بات کرتے ہیں۔ اس سال 15 نومبر کی شام لوک ورثہ میں خیبر پختونخوا کلچرل نائٹ کا منظر کچھ خاص تھا۔ اوپن ایئر تھیٹر میں بیٹھنے کی جگہ کم پڑ رہی تھی۔ لوگ دور دور سے آئے تھے اور فضا خوشی، شور اور انتظار سے بھری ہوئی تھی۔ ہر شخص اپنے پسندیدہ فنکار کی پرفارمنس دیکھنے کے لیے بے چین تھا۔

اسٹیج پر بڑا ایس ایم ڈی اسکرین نصب تھا اور اس پر دیگر فنکاروں کے ساتھ راج خان کی تصویر بھی دکھائی دے رہی تھی جس نے دل فخر سے بھر دیا۔ نوے ژوند تنظیم کے ارکان نے ایک دن پہلے فیصلہ کیا کہ اس بار راج خان کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی تیاری کریں گے کیونکہ اپنے فنکار کی کامیابی ہماری خوشی ہے۔

جب ہم اوپن ایئر تھیٹر پہنچے ہال اتنا بھرا ہوا تھا کہ بیٹھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی۔ اندر داخل ہوئے تو ڈریسنگ روم میں اپنے دوست بختیار خٹک اور ہمایون خان کو بارہ سال بعد دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ہم نے دیگر مشہور فنکار بھی دیکھے: ہمایون خان، ذیک آفریدی، ثنا تاجک، غلام محمد، خانزادہ اسفندیار خٹک اور آرزو خان۔ یہ منظر بتا رہا تھا کہ خیبرپختونخوا کی کلچرل نائٹ جذبات اور جوش سے بھری ہوگی۔

اسٹیج کی میزبانی صحافی شیراز احمد شیرازی اور میزبان نازش فاطمہ کر رہے تھے۔ مجھے خوشی ہوئی کیونکہ شیرازی ہماری تنظیم کے سابق جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں اور نیشنل لائبریری اسلام آباد میں امن ایوارڈ کے پروگرام کی کمپیئرنگ بھی کی تھی۔ اسی لیے جب شیرازی نے راج خان کو پرفارمنس کے لیے بلایا یہ لمحہ یادگار رہا۔

راج خان نے اپنی میٹھی اور بھرپور جذبات والی آواز سے فضا کو جلا بخشی۔ ہر مصرع کے ساتھ نوجوانوں کے جوش اور تالیوں نے محفل کو مزید گرم رکھا۔ بعد میں ہمایون خان نے اپنی مشہور دھن "ستا چارګل سلور پرے” پیش کی جس نے نوجوانوں اور بچوں کے جذبات کو جگایا اور پورا پنڈال مستانہ فضاء میں ڈوب گیا۔ بختیار خٹک کو بھی بے پناہ پذیرائی ملی۔ شاهد علی خان نے پشتو اور دیگر زبانوں میں گانے پیش کیے۔ جب انہوں نے "کالی کالی زُلفوں کے پهندے” قوالی انداز میں شروع کیا اور ہر مصرع سامعین کے ساتھ گایا تو پورا پنڈال ایک آواز بن گیا۔ میں بھی آہستہ آہستہ ساتھ گنگناتا رہا۔

بعد میں ثنا تاجک آئیں، جن کی آواز میں درد اور کشش تھی۔ ان کے "وائی وائی” نے سامعین کو محو کر دیا، اور تالیوں کا شور دیر تک گونجتا رہا۔ آخر میں ذیک آفریدی آئے اور اپنی مشہور دھن "بی بی شیرینے” گائی۔ نارنجی لباس میں ایک فنکارہ نے دلکش رقص کیا اور پورا پنڈال پھر جوش میں آگیا۔ یہ لمحہ ثقافت، موسیقی اور فن کا زندہ جشن تھا۔

میں مشہور گلوکاروں کو لانے کے خلاف نہیں لیکن یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ لوک ورثہ کے اس اسٹیج کا مقصد فوک اور لائیو پرفارمنس دینے والے گلوکاروں کے لیے ہے۔ راج خان مروت اور شاهد علی خان کے علاوہ باقی تمام فنکاروں نے ریکارڈ شدہ گانوں کے ساتھ لپسنگ کی اور اس پروگرام کو لائیو کے بجائے ایک ڈِی جے پروگرام کا منظر پیش کیا۔

راج خان مروت اور شاهد علی خان نے اپنی لائیو پرفارمنس سے لوگوں کے دل جیتے لیکن باقی فنکار، جو اسٹیج پر گانے کے لیے آئے تو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ٹی وی پر گانے دیکھ رہے ہوں۔ خیبر پختونخوا کلچر ڈپارٹمنٹ کو استاد احمد خان جیسے فنکاروں کو بلانا چاہیے تھا جو حقیقی لائیو اور فوک گانے پیش کرتے اور ساتھ ہی. آن کی مالی مدد بھی ہو جائے گی۔

ایک اور زیادتی یہ ہوئی کہ جب کھتک اور خٹک ڈانس کے مشہور فنکار خانزادہ اسفند یار خٹک کو اسٹیج پر ڈانس کے لیے بلایا گیا تو محض دو منٹ بھی مکمل نہیں ہوئے کہ ان کے لیے ساز بند کر دیے گئے اور بی بی شیرین کے لیے ذِیک آفریدی کو دعوت دی گئی۔ میں کہتا ہوں ذِیک آفریدی کو بھی بلانا چاہیے تھا لیکن خانزادہ اسفند یار کا لائیو ڈانس ضرور لوگوں کو دکھایا جانا چاہیے تھا مگر یہاں ساز بند کر کے ان کا مذاق اڑایا گیا جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔

اب آتے ہیں ایوارڈ کی طرف کیونکہ میلے کے اختتام پر سب صوبوں کا ایک مشترکہ اختتامی پروگرام ہوتا ہے جس میں اچھی کارکردگی پر ایوارڈ دیئے جاتے ہیں تو اس بار بھی 16 نومبر 2025 کو پاکستان کے قومی ثقافتی میلے لوک میلہ کی اختتامی تقریب شکر پڑیاں لوک ورثہ میں ہوئی۔ ملک بھر کے پویلینز، فنکار اور دستکار رنگینیاں لے کر آئے اور ملک کی ثقافت کو منایا گیا۔ اعزازی مہمان وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری تھے جنہیں شرکاء نے خوش آمدید کہا۔

تقریب میں ایگزیکٹیو ڈائریکٹر لوک ورثہ ڈاکٹر وقاص سلیم، ڈی جی خیبرپختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی حبیب اللہ عارف، ڈائریکٹر لوک ورثہ انوارالحق, ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ فنانس ٹورازم اتھارٹی عمر خان, ڈائریکٹر کلچر اجمل خان, ڈپٹی ڈائریکٹر ایونٹس صنم بشیر اور دیگر صوبوں کے نمائندے موجود تھے۔ایوارڈ کی تقریب میں فنکاروں کو نقد انعامات اور اسناد دی گئیں۔ خیبرپختونخوا کے پویلین کو بلند ترین اعزاز دیا گیا اور شرکاء نے اسے سراہا۔

ڈی جی خیبرپختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی، حبیب اللہ عارف نے کہا: یہ کامیابی ہماری ٹیم کی محنت کا نتیجہ ہے جو میلے کے شروع سے اختتام تک جاری رہی۔ یہ اعزاز ہر اس شخص کے لیے ہے جس نے صوبے کے ثقافت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے مزید کہا: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی اور چیف سیکرٹری شہاب علی شاہ نے ثقافت اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے رہنمائی فراہم کی۔ انہی کی ہدایات کی وجہ سے ہم بہترین پویلین ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

اختتامی رات خیبرپختونخوا کے فنکاروں کی موسیقی، لوک رقص اور روایتی فن کے پیشکشوں سے رنگین ہوئی۔ شرکاء نے مسلسل داد دی اور میلے کی فضا خوشگوار بنی رہی۔

میں نے تمام پویلین دیکھے۔ ہر ایک خوبصورت اور کلچر کی نمائندگی کر رہا تھا۔ مگر میرے لیے دو پویلین خاص تھے: ایک وہ صوبہ جہاں میری پیدائش ہوئی دوسرا وہ جہاں میں نے اپنے زندگی کے خوبصورت سال گزارے۔ یہ دونوں میرے لیے خون سے جڑی پشتون رشتہ داری رکھتے ہیں بلوچستان اور خیبرپختونخوا۔

یہ دونوں پویلین مجھے اس لیے بھی پسند آئے کہ پشتو پشتونولی اور پشتون کلچر کی مکمل جھلک تھی۔ منتظمین فنکار اور ثقافت کے لیے کام کرنے والوں نے محنت کی جس کے لیے میں ان کی دل سے تعریف کرتا ہوں۔ خیبرپختونخوا میں میرے دوست زیادہ تھے اس لیے میں وہاں گیا تاکہ راج خان کی آواز سن سکوں۔خیبرپختونخوا کا پویلین اور موسیقی کی رات دلکش تھی۔ پشتونوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی، کیونکہ خیبرپختونخوا اور اسلام آباد کے قریب رہنے کی وجہ سے بہت سے پشتون یہاں مقیم ہیں۔

میری خواہش ہے کہ اگلے سال بلوچستان جو پشتون بلوچ صوبہ ہے اور خیبرپختونخوا کے پشتونوں کے لیے ایک مشترکہ موسیقی پروگرام ہو۔ یہ پروگرام کسی خوبصورت میدان میں ہو، بہترین اسٹیج تیار ہو، دونوں صوبوں کے گلوکار گیت پیش کریں اور تمام پشتون مل کر اپنی ثقافت کا جشن منائیں۔

اگر مختلف زبانوں کے ثقافتی پروگرام بھی ساتھ پیش کیے جائیں تو یہ جشن اور شاندار ہوگا۔ رقص، لوک ساز، دھنیں اور ثقافتی نمائشیں مل کر پشتون ثقافت کی اصل روح کو روشن کریں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے