پاکستان اکثر زرعی انقلاب کی بات کرتا ہے — نئے بیج، موسمیاتی ذہین ٹیکنالوجی، ویلیو چینز، میکانائزیشن اور ڈیجیٹل ایکسٹینشن — لیکن ہر منصوبہ ایک نازک مفروضے پر کھڑا ہے: پانی بہ آسانی آتا رہے گا۔
وہ نہیں آئے گا۔
وہ نظام جس پر پاکستان نے اپنی زرعی معیشت کی بنیاد رکھی تھی، اس رفتار سے بکھر رہا ہے کہ کوئی زرعی روڈ میپ اس بگاڑ کی تلافی نہیں کر سکتا۔ جب تک یہ نظام دوبارہ قائم نہ ہو — منظم، ناپ تول پر مبنی، ضابطہ بند اور قابلِ پیشگوئی — زراعت بہتر نہیں ہوسکتی۔
سِندھ طاس نظامِ آبپاشی ملک کی 90 فیصد سے زیادہ فصلوں کو سیراب کرتا ہے، مگر نہروں کے سروں پر چھوڑا گیا ایک بڑا حصہ کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں ضائع ہو جاتا ہے۔
تازہ تحقیقی مطالعے بتاتے ہیں کہ نہروں، ذیلی نہروں، واٹر کورسز اور کھیتوں کے درمیان تقریباً نصف پانی راستے میں ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ خالص ڈھانچائی ناکامیاں ہیں۔ کسان بہتر بیج کیسے اپنائیں جب پانی کی ’’ورکھ‘‘ بے اعتبار ہو؟ ویلیو چین کیسے چلے جب آخری سرے پر پانی ہی موجود نہ ہو؟ پاکستان میں پیداوار اس لیے نہیں گرتی کہ کسان غفلت کرتے ہیں؛ اس لیے گرتی ہے کہ پانی پہنچتا ہی نہیں۔
زمینی پانی طویل عرصے تک اس نظام کا خاموش سہارا رہا، نہری نظام کی غیر یقینی کو سہارا دیتا رہا۔ اب یہ زرعی آبپاشی کے نصف سے زیادہ حصے کو سنبھالے ہوئے ہے، اور یہ سب تقریباً 14 لاکھ نجی ٹیوب ویلوں کے ذریعے ہو رہا ہے۔
پیئر ریویوڈ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کم گہرے ٹیوب ویل سے 1000 کیوبک میٹر پانی نکالنے کی اوسط لاگت تقریباً 4,225 روپے ہے، اور چھوٹے کسانوں کے لیے یہ لاگت عملاً تین گنا تک بڑھ جاتی ہے۔
ریچنا ڈوآب کے کیس اسٹڈی ماڈلنگ سے معلوم ہوا کہ جب زیرِ زمین پانی کی سطح تقریباً چھ میٹر سے بڑھ کر بیس میٹر سے اوپر چلی جاتی ہے تو پمپنگ لاگت تین گنا سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ پیٹرن ملک کے کئی نہری علاقوں میں نظر آتا ہے، خواہ گہرائی مختلف ہو، مگر رجحان ایک ہی ہے: زمینی پانی پہلے سے زیادہ گہرا اور زیادہ مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
اس کے باوجود پاکستان کی فصلوں کا ردِعمل اس کے برعکس سمت میں جا رہا ہے۔ کپاس — جو کم پانی لیتی ہے — کی جگہ رفتہ رفتہ گنا اور چاول لے رہے ہیں، اور اکثر انہی اضلاع میں جہاں زیرِ زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔
• گنا فی ایکڑ 5,900 تا 11,130 کیوبک میٹر پانی مانگتا ہے
• چاول عموماً 3,240 تا 6,070 کیوبک میٹر
• جبکہ کپاس صرف 1,620 تا 2,830 کیوبک میٹر پر گزارا کر لیتی ہے
کسانوں کے لیے گنا اور چاول اس لیے پُرکشش ہیں کہ خریدار یقینی، خریداری کی پالیسی واضح، اور سیاسی پشت پناہی مضبوط ہے۔ مگر ہائیڈرولوجی کے نقطۂ نظر سے یہ رجحان خود تباہ کن ہے۔
پاکستان عین اُس وقت اپنی سب سے زیادہ پانی خور فصلوں کو بڑھا رہا ہے جب سطحی پانی کے بہاؤ غیر معتبر اور زمینی پانی کی نکاسی ناقابلِ برداشت حد تک مہنگی ہو رہی ہے۔ یہ ملک کو ایک ناممکن مساوات میں قید کر دیتا ہے: پانی کم، طلب زیادہ۔
پانی کی تقسیم کا معاہدہ 1991 بہاؤ کی تقسیم کے لیے ایک باضابطہ، قواعد پر مبنی فریم ورک فراہم کرتا ہے، مگر عملی طور پر تقسیم اب بھی زیادہ تر سیاسی ہے، ہائیڈرولوجیکل نہیں۔
ٹیلی میٹری نظام، جو شفافیت کے لیے ضروری ہیں، یا تو متنازع ہیں یا غیر فعال۔
اور زمینی پانی — جو آج پاکستان کی زراعت کا اصل سہارا ہے — تقریباً مکمل طور پر غیر منظم ہے۔
2024 میں پیش کیا گیا IRSA ترمیمی آرڈیننس اسی جمود کی ایک مثال ہے۔ اس کا مقصد زمینی پانی کی نکاسی کے لیے ایک قومی فریم ورک بنانا تھا، جو سائنسی شواہد اور عالمی بہترین مثالوں سے ہم آہنگ ہو۔ یہ تجویز اس لیے نہیں گری کہ ہائیڈرولوجی متنازع تھی بلکہ اس لیے کہ صوبے اپنے اختیارات کم نہیں کرنا چاہتے تھے۔
یوں پاکستان ایک تضاد میں پھنس گیا ہے: دنیا کے بڑے زمینی پانی نکالنے والے ممالک میں شامل، لیکن نہ محفوظ نکاسی کی پابند حدیں، نہ اکیوئفر لیول کا باقاعدہ حساب کتاب، اور نہ کوئی ادارہ جاتی نظام جو زمینی پانی کے استعمال کو زرعی منصوبہ بندی سے جوڑے۔ یہ سب کچھ بنیادی طور پر گورننس کی ناکامی ہے، محض پانی کی کمی نہیں۔
دہائیوں کی زرعی پروگرامنگ ایک ہی سبق دیتی ہے:
جدید ترین مداخلتیں بھی ٹوٹے ہوئے پانی کے نظام کے اندر محدود اثر دیتی ہیں۔
ڈِرِپ اریگیشن جیسے نظام اس وقت تک محدود فائدہ دیتے ہیں جب تک نہریں آدھا پانی راستے میں گنوا دیں۔
اعلیٰ پیداوار والے بیج اس وقت کچھ نہیں کر سکتے جب آبپاشی کے اوقات ہی بکھر جائیں۔
مارکیٹ سے جڑی ہوئی دالوں کی اسکیمیں اس وقت ڈگمگا جاتی ہیں جب زیرِ زمین پانی کی سطح 10 سے 12 میٹر تک گرنے سے پمپنگ لاگت اتنی بڑھ جائے کہ منافع ختم ہو جائے۔
پراجیکٹس اکثر یہ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں کہ “کسان اپنانے میں سست ہیں”، جب کہ اصل مسئلہ بنیادی پانی کا نظام ہوتا ہے۔
جہاں پانی، زراعت، آبپاشی اور موسمیاتی شعبے ایک ساتھ بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے ہیں، وہاں بہتری کے آثار نظر آتے ہیں۔
جہاں یہ شعبے ایک دوسرے سے کٹے رہتے ہیں، وہاں بگاڑ تیز ہوتا ہے۔
مشترکہ مفاداتی کونسل (CCI) اسی خلا کو پُر کرنے کے لیے بنائی گئی تھی — اور اگر اسے حقیقی اختیار، ڈیٹا تک رسائی اور فالو اپ میکانزم دیا جائے تو یہ پانی کی حکمرانی میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے۔
سیاسی چیلنج واضح ہیں۔ اصلاحات جڑے ہوئے مفادات کو چیلنج کرتی ہیں، صوبائی خودمختاری کے بیانیے کو چھوتی ہیں، اور اُن اداروں سے ہم آہنگی مانگتی ہیں جو برسوں سے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے رہے ہیں۔
لیکن متبادل راستہ یقینی تنزلی ہے۔ فی کس پانی کی دستیابی قلت کی حد سے نیچے جا چکی ہے۔ اہم اضلاع میں اکیوئفر ناقابلِ واپسی کمی کے قریب ہیں۔ 2022 کے سیلاب ہوں یا 2025 کی تیز تر مون سون، موسمیاتی بے یقینی نے زرعی منصوبہ بندی کو خطرناک حد تک غیر مختاط بنا دیا ہے۔
پاکستان کو زرعی مہارت یا کسانوں کی محنت کی کمی نہیں؛ پاکستان کو پانی کی حکمرانی میں ہم آہنگی کی کمی ہے۔
ہر وہ روپیہ جو زرعی ترقی پر خرچ کیا جاتا ہے مگر پانی کی اصلاح کے بغیر، جزوی طور پر ضائع جاتا ہے۔
ہر رکا ہوا ٹیلی میٹری منصوبہ،
ہر اوور رائیڈ ہونے والا نہری روٹیشن شیڈول،
اور ہر غیر منظم ٹیوب ویل
ملک کی زراعت کو ساختی بحران کی طرف مزید دھکیل رہا ہے۔
اگر پاکستان واقعی زرعی بحالی چاہتا ہے تو اسے وہاں سے آغاز کرنا ہو گا جہاں زراعت شروع ہوتی ہے: پانی سے۔
پانی کا نظام درست کریں، زراعت خود کو سنبھال لے گی۔
اسے نظر انداز کریں تو نہ پالیسی، نہ جوش، نہ پروگرام اور نہ پیسہ، زوال کو روک سکے گا۔
پانی کی حکمرانی کوئی متوازی پٹی نہیں .
یہی اصل پٹری ہے۔
باقی سب کچھ اسی پر چلتا ہے۔
مصنف سابق وزیرِ آبپاشی و خزانہ پنجاب ہیں اور پاکستان کی صوبائی اور وفاقی مقننہ میں وسیع پارلیمانی تجربہ رکھتے ہیں۔