پنجاب سے خیبر پختونخوا میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جو چیز مسافر کو چونکا دیتی ہے، وہ سڑکوں کی حالت ہے۔ ایک طرف پنجاب کی ہموار شاہراہیں، سجے ہوئے قصبے اور نسبتاً بہتر انفراسٹرکچر؛ اور دوسری طرف خیبر پختونخوا کی حدود میں قدم رکھتے ہی جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ادھورے ترقیاتی منصوبے اور ایک ایسی پسماندگی جسے دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس صوبے میں گزشتہ 13 سال سے مسلسل ایک ہی جماعت کی حکومت رہی ہے۔
اسلام آباد سے بنوں اور وزیرستان تک کا یہ سفر میں نے خود طے کیا، اور اس سفر نے بہت سے سیاسی نعروں اور وعدوں کی حقیقت کھول کر سامنے رکھ دی۔ سفر کا آغاز نہایت آرام دہ تھا—موٹر وے کی صاف ستھری سڑکیں، رفتار میں روانی، اور اردگرد کی بستیوں کی چہل پہل۔ مگر جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے اور حدِ پنجاب عبور کی، منظر بدلتا گیا۔ سڑکوں کا ہموار پن یک دم غائب ہونے لگا۔ کہیں بڑے بڑے گڑھے، کہیں ٹوٹے ہوئے کنارے، تو کہیں ایسے حصے جنہیں سڑک کہنا بھی مشکل تھا۔
یہ وہی صوبہ ہے جسے ’’تبدیلی کی تجربہ گاہ‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ یہاں صحت، تعلیم، پولیس، اور گورننس کے شعبوں میں انقلاب آ چکا ہے۔ مگر زمینی حقیقت ایک مختلف کہانی سناتی ہے۔ جنوبی خیبر پختونخوا، خصوصاً بنوں، لکی مروت، میرانشاہ اور وزیرستان کے راستے بتاتے ہیں کہ ترقی یہاں شاید کبھی رکی ہی نہیں… بلکہ شروع ہی نہیں ہوئی۔
وزیرستان کے سفر کے دوران مختلف جگہوں پر رک کر مقامی لوگوں سے بات ہوئی۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سا سکوت اور باتوں میں برسوں سے جمع محرومی جھلکتی تھی۔ ایک شخص نے تلخی سے کہا:
“سر! بس حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، حالات نہیں بدلتے۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں بیس سال پہلے تھے۔”
یہ ایک دو افراد کی بات نہیں، پورے علاقے کی کہانی ہے۔ بنیادی صحت کے مراکز خالی، اسکولوں کی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، صاف پانی نایاب، اور روزگار کا تصور بس دعوؤں تک محدود۔ ستم ظریفی یہ کہ یہاں کے لوگوں نے دہشتگردی کی سب سے بھاری قیمت ادا کی، مگر ترقیاتی بجٹ میں ان کا حصہ ہمیشہ کم سے کم رکھا گیا۔
اسلام آباد سے وزیرستان تک کا سفر صرف راستوں کا سفر نہیں تھا۔ یہ اس تلخ حقیقت کا مشاہدہ تھا کہ اس ملک میں ترقی کا توازن کس قدر بگڑ چکا ہے۔ پشاور سے آگے نکلتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انتظامی اور سیاسی ہاتھ ان علاقوں کو بھول چکا ہے۔ علاقائی پسماندگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ بنیادی ضروریات کے لیے بھی میلوں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
بات صرف سڑکوں کی نہیں—یہ پورا نظام ہے جو پسماندگی کے گرد گھوم رہا ہے۔ 13 سال کی مسلسل حکومت کے باوجود نہ سڑکیں بہتر ہو سکیں، نہ ہسپتال، نہ اسکول، نہ ہی روزگار کے مواقع۔ وعدوں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ جنوبی کے پی، خاص طور پر وزیرستان، آج بھی ریاستی توجہ اور منصوبہ بندی سے محروم ہے۔
یہ سفر مکمل ہوتے وقت دل میں ایک ہی سوال تھا: آخر ذمہ داری کس کی ہے؟ 13 سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے—اتنا وقت کافی ہوتا ہے کہ ایک صوبے کی شکل بدل دی جائے، لیکن یہاں ایسا کیوں نہ ہو سکا؟ عوام نے اعتماد کیا، ووٹ دیا، تسلسل دیا—مگر اس کے بدلے میں کیا ملا؟ مزید ٹوٹی ہوئی سڑکیں، مزید محرومی، مزید بے حسی۔
شہراقتدار سے وزیرستان تک کا سفر ختم ہوا، مگر سوال ابھی باقی ہیں۔ تبدیلی کے بڑے بڑے نعروں کے باوجود اگر حقیقت وہی پسماندگی اور وہی بدحالی ہے، تو پھر یہ 13 سالہ دور کس کھاتے میں لکھا جائے؟ عوام نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے، اب باری حکمرانوں کی ہے کہ اس زمینی حقیقت کو دیکھیں، سمجھیں، اور بالآخر اس محروم خطے کو بھی وہ پاکستان دیں جس کا وعدہ برسوں سے کیا جا رہا ہے۔
یہ سفر آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ تبدیلی کے دعوؤں میں کتنا وزن تھا، یہ فیصلہ اب ان سڑکوں نے خود سنانا شروع کر دیا ہے۔