محبت اندھی ہوتی ہے یہ کمبخت نہ عمر دیکھتی ہے نہ ہی ذات پات اور نہ سرحدوں کی دیواریں اس کے سامنے کوئی معنی رکھتی ہیں۔ دل جب دھڑکتا ہے تو کسی پاسپورٹ کی پہچان نہیں مانگتا نہ کسی مذہبی شناخت کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جو کبھی رشتوں کو بکھیر دیتی ہے اور کبھی انہی رشتوں کو نئی روشنی میں پرو دیتی ہے۔ محبت کی اسی دھند میں بعض فیصلے ایسے سامنے آتے ہیں جو معاشرے کے اندر دبے ہوئے سوالوں کو بیدار کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک فیصلے کی بازگشت انڈیا اور پاکستان کے بیچ حال ہی میں گونج رہی ہے جب سربجیت کور کی خبر نے مذہبی یاترا کو بحث کا مرکز بنا دیا اور کئی حلقوں میں اضطراب جنم لیا۔
سربجیت کور سکھ یاتریوں کے ایک وفد کے ساتھ گرو نانک کے یومِ پیدائش پر ننکانہ صاحب جانے والی تھیں مگر چند دن بعد یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان پہنچ کر انھوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور ناصر حسین نامی پاکستانی شہری سے شادی کر لی۔ اس خبر نے ایس جی پی سی کے ترجمان کو اس قدر پریشان کیا کہ انھوں نے آئندہ غیر شادی شدہ خواتین کو ایسے گروہوں میں شامل نہ کرنے کا عندیہ دیا گویا ایک فیصلے نے پوری یاترا پر سوالیہ سایہ ڈال دیا۔ ان کے مطابق یہ عمل پنجاب کی عزت پر دھبہ اور یاتریوں کے لیے باعثِ تشویش بنا جبکہ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے رہے کہ سربجیت شاید پہلے سے ناصر حسین کے ساتھ رابطے میں تھیں۔
یہ بیان منظر عام پر آتے ہی بے شمار آوازیں بلند ہوئیں خاص طور پر خواتین نے اسے غیر منصفانہ قرار دینے کے ساتھ عورتوں کی قابلیت پر عدم اعتماد سے تعبیر کیا۔ ڈاکٹر ہرشندر کور نے واضح کیا کہ سکھ مذہب خواتین کو بلند مرتبہ دیتا ہے وہ رہنمائی کا بھی حق رکھتی ہیں اور اپنا راستہ خود چننے کی صلاحیت بھی۔ ان کے مطابق ایک خاتون کے فیصلے کو بنیاد بنا کر پوری برادری کی آزادی محدود کرنا بنیادی اصولوں سے انحراف ہے۔
کئی دیگر خواتین نے بھی یہی مؤقف دہرایا کہ اگر پابندی لگانی ہے تو اسے صرف ایک جنس تک محدود کیوں رکھا جائے؟ کچھ نے کہا کہ سربجیت کا فیصلہ ان کا ذاتی معاملہ تھا اور اسے اجتماعی فرض یا خطا بنا کر پیش کرنا غیر مناسب رویہ ہے۔ ایس جی پی سی کے اندر سے بھی ایسی آوازیں ابھریں جنہوں نے ترجمان کے بیان کو دقیانوسی ذہنیت کا شاخسانہ کہا اور مطالبہ کیا کہ خواتین کو اپنے وجود کی طرف سے آواز بلند کرنی چاہیے۔
ادھر یاترا پر جانے والی خواتین نے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے سفر میں ہمیشہ باوقار طریقے سے شریک رہی ہیں اور کبھی کسی غیر ضروری پابندی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ان سب کا کہنا تھا کہ اگر ایک عورت نے ایک فیصلہ کیا تو اسے تمام خواتین کے کردار پر داغ نہیں بننے دیا جا سکتا۔
دوسری جانب اکال تخت کے جیٹھیدار نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان کو سربجیت کور کو واپس بھیجنا چاہیے تاکہ آئندہ گروہوں پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ جب کئی خواتین کو انکوائری کی بنیاد پر واہگہ سے واپس بھیج دیا گیا تھا تو سربجیت کس طرح سفر میں شامل ہو گئیں۔ ایسے واقعات پہلے بھی پیش آئے چاہے وہ 2018 میں کرن بالا کا معاملہ ہو یا وہ نوجوان جو چند دن بعد واپس آ گیا تھا۔
یوں ایک فیصلہ جو بظاہر دو افراد کی ذاتی ترجیح تھی دونوں اطراف سوالوں کا بوجھ بن کر ابھرا۔ بحث یہ نہیں کہ سربجیت نے کیا کیا یہ ہے کہ کیا ایک عورت کا فیصلہ پوری برادری کی آزادی کا معیار بن سکتا ہے؟ سرحدوں کے دونوں جانب یہ سوال گونج رہا ہے کہ کیا اعتماد کو سزا کے طور پر محدود کیا جانا چاہیے یا پھر اسے مزید مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے؟