دنیا میں انسانوں کی کئی صورتیں ہیں کئی رنگ، کئی لہجے
مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں ہم دیکھتے تو ہیں مگر دیکھتے نہیں
جن کے وجود کو ہم آسمان تلے جگہ تو دیتے ہیں، مگر اپنے دل کی چھتوں میں ان کے لیے کوئی کونا مختص نہیں کرتے۔
میرا معاشرہ جس کا میں بھی ایک خاموش پرزہ ہوں آج بھی کچھ انسانوں کو اس طرح الگ کرتا ہے جیسے کوئی ماں اپنے بچوں میں سے کچھ کو گود میں لے لے اور کچھ کو دہلیز پر چھوڑ دے
اور افسوس یہ کہ یہ سب کچھ مذہب کے نام پر، اخلاقیات کے نام پر اور معاشرتی روایات کے نام پر کیا جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے بچپن کی گلیوں میں جب ٹرانس جینڈر افراد سے متعلق بات ہوتی تھی تو بڑوں کی آواز میں ایک عجیب سختی آ جاتی تھی۔
جیسے وہ انسان نہیں بلکہ کوئی آفت ہوں
مجھے بھی سکھایا گیا کہ ان سے دور رہنا بہتر ہے
میں نے کبھی سوال نہیں کیا کہ کیوں؟
شاید ہمیں سوال کرنا سکھایا ہی نہیں جاتا تھا
بلکہ ہمیں دوسرے انسانوں سے ڈرنا سکھایا جاتا تھا۔
زندگی اپنی رفتار سے آگے بڑھتی رہی، اور میں معاشرتی کہانیوں پر یقین کرتا رہا، جب تک کہ ایک ایسا لمحہ نہیں آیا جس نے میرے سامنے ایک نئی کھڑکی کھول دی
ایک ایسی کھڑکی جس سے ہوا بھی نئی تھی اور منظر بھی۔
یہ لمحہ نمکین ایکٹیوسٹ تھیں۔
نمکین پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک ٹرانس جینڈر رائٹس کارکن ہیں، جو ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں وہ ٹرانس سپورٹ گروپ کی بانی ہیں۔ نمکین ایک آرٹسٹ مصورہ اور کہانی سنانے والی ہیں، اور یونیورسٹی آف پشاور سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز ڈگری رکھتی ہیں۔
ایک دن نیشنل یوتھ والنٹیر نیٹ ورک کے گروپ میں ایک پیغام دیکھا
مجھے ویب ڈیویلپر چاہیے۔ کوئی مدد کر سکتا ہے؟
میرا کام تھا، میں نے جواب دے دیا۔
جواب عام سا تھا، مگر اس کے بعد جو سفر شروع ہوا وہ عام نہیں تھا۔
ابتدانہ مجھے اندازہ ہوا کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں۔
چند پیغامات، چند مختصر باتیں
مگر پھر جب پہلی کال ہوئی تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ معاملہ کچھ مختلف ہے۔
ایک لمحے کو دل میں پرانی تربیت کی چاپ سنائی دی
اگر یہ ٹرانس جینڈر نکلیں تو؟ لوگ کیا کہیں گے؟
لیکن فوراً دماغ نے کہا
ان کے پیغام میں تم نے کہاں عدم انسانیت دیکھی؟ ان کی تہذیب تمہیں کیوں خوف زدہ کر رہی ہے؟ کیا تم نے اتنے سال پڑھائی صرف اس لیے کی تھی کہ وہی قدیمی سوچ اٹھا لو؟”
میں خاموش ہو گیا
اور پھر میں نے ہاں کر دی۔
نمکین اس وقت امریکہ میں تھیں۔
آن لائن میٹنگز شروع ہوئیں
ان کی گفتگو میں ایک عجیب ٹھہراؤ تھا، لفظ چنتے وقت ان کی زبان میں نرمی تھی، اور بات کرتے ہوئے ان کے لہجے میں ایسی وقعت تھی جو انسان کو سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دے۔
مجھے حیرت ہوتی تھی یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہمیں ڈرایا گیا تھا؟
یہ وہ ہیں جنہیں معاشرہ عزت سے محروم رکھتا ہے؟
یہ وہ ہیں جنہیں ہم اپنی زندگیوں کے کناروں سے دھکیل دیتے ہیں؟
تعلیم یافتہ، باشعور باوقار میں نے پہلی بار ایسی شخصیت اس کمیونٹی میں دیکھی۔
اور اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ شاید ہم اس دنیا کو آدھا دیکھتے ہیں اور باقی آدھا حصہ خود ہی اندھیرے میں رکھ دیتے ہیں۔
کئی ہفتے کام چلتا رہا۔
مجھے اس دوران ان کی کہانی کے کچھ حصے سننے کو ملے، اور کچھ اندازے میں نے خود لگا لیے۔
گھر سے نکلنا پڑتا ہے معاشرہ راستے بند کرتا ہے اسکول میں جملے سہنے پڑتے ہیں، کبھی دوست چھوڑ دیتے ہیں، کبھی استاد آنکھ بچا کر ہنسی دباتے ہیں۔
اور یہ سب برداشت کر کے کوئی تعلیم مکمل کرے تو وہ صرف تعلیم یافتہ نہیں ہوتا
وہ کردار میں مضبوط بھی ہوتا ہے۔
پھر وہ دن آیا جب میں نمکین سے بالمشافهه ملنے والا تھا۔
نیشنل یوتھ والنٹیر نیٹ ورک کا ایک پروگرام تھا۔
شہاب بھائی نے سب کو شرکت کی تاکید کی تھی، اور دل میں بھی کچھ خواہش تھی کہ اس شخصیت کو روبرو دیکھوں
میں حسبِ عادت سب سے آگے بیٹھ گیا۔
جب نمکین ہال میں داخل ہوئیں تو ایسا لگا جیسے ایک بالکل نئی فضا ہال میں اُتر آئی ہو۔
ان کے چلنے میں اعتماد تھا، چہرے پر نرمی، اور بات کرنے کے انداز میں وقار۔
انہوں نے مجھے موبائل پر میسج کیا
آگے ہو یا پیچھے؟
میں نے جواب دیا
سب سے آگے بیٹھا ہوں۔
انہوں نے مسکرا کر اشارہ کیا
پیچھے آ جائیں۔
اس ایک اشارے میں بھی ادب تھا، نرمی تھی۔
اور میں اس لمحے سوچ رہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
جنہیں ہم نے کبھی سنجیدگی سے جاننے کی کوشش نہیں کی۔
میں نے ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی دیکھی وہ روشنی جو انسان صرف تکلیفیں جھیل کر ہی حاصل کرتا ہے
وہ روشنی جو وہ لوگ لے کر چلتے ہیں جنہیں دنیا نے بار بار روکا ہو لیکن انہوں نے ہمت بار بار اٹھائی ہو۔
یہ سوچ کر دل بھاری ہوتا گیا کہ گھر سے لے کر اسکول تک، اور اسکول سے یونیورسٹی تک، انہوں نے کیا کیا برداشت کیا ہوگا؟
ہم میں سے کتنے ہیں جو ان راستوں سے گزر سکتے ہیں؟
اور کتنے ہیں جو اس سب کے باوجود دوسروں کے لیے کچھ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟
نمکین اپنی کمیونٹی کے لیے کام کر رہی ہیں۔
اپنی تنظیم بنا رہی ہیں۔
لوگوں کو یکجا کر رہی ہیں۔
حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔
اور ہم
ہم اب بھی اسی بات پر الجھے ہیں کہ ان کی جنس کیا ہے۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ اصل مسئلہ ان کی شناخت کا نہیں
اصل مسئلہ ہماری آنکھوں کا ہے جو دیکھنا ہی نہیں چاہتیں
اصل مسئلہ ہمارے دلوں کا ہے جو بدلنے سے ڈرتے ہیں
اصل مسئلہ ہمارے معاشرے کا ہے، جو ہر اس چیز سے گھبراتا ہے جو اس کی روایتی عینک میں فٹ نہ بیٹھے۔
اور یوں
یہ ساری کہانی ختم ہونے کے بجائے ایک سوال پر آکر ٹک جاتی ہے
کیا انسان کی قدر اس کی جنس سے ہوتی ہے؟
یا اس کے کردار سے؟
یہ سوال میرے سامنے بھی کھڑا ہے۔
آپ کے سامنے بھی کھڑا ہے۔
اور شاید اس معاشرے کے دروازے پر بھی دستک دے رہا ہے مگر سننے والا کوئی کم ہے۔