محمد اظہر جاوید، جو ادبی دنیا میں اظہر نیاز کے نام سے جانے جاتے ہیں، یکم جنوری 1954 کو رحیم یار خان کی زرخیز مٹی میں پیدا ہوئے۔ ان کا قلمی نام اُن کی فکری شناخت بن گیا, ایک ایسا نام جو خاموشی سے دلوں میں اترتا ہے اور دیرپا اثر چھوڑتا ہے۔ رحیم یار خان کی سادہ مگر روح پرور فضا نے اُن کے اندر وہ حساسیت، وقار، اور فکری گہرائی پیدا کی جو بعد میں ان کی تحریروں، نشریاتی خدمات، اور شعری اظہار میں جھلکتی ہے۔ اظہر نیاز نہ صرف اپنی جنم بھومی سے جڑے رہے بلکہ اپنی زبان، تہذیب، اور اقدار کو بھی ہمیشہ سینے سے لگائے رکھا, یوں وہ ایک ایسے تخلیق کار کے طور پر سامنے آئے جن کی جڑیں مٹی میں تھیں اور نظریں افق پر۔
اظہر نیاز اردو ادب، نشریات اور بچوں کے ادب کی دنیا میں ایک معتبر، متنوع اور ہمہ جہت نام ہیں۔ اُن کی شخصیت میں ایک فکری رہنما کی بصیرت، ایک حساس شاعر کی لطافت، ایک کہنہ مشق افسانہ نگار کی گہرائی، اور ایک خاموش خدمت گزار کی عاجزی یکجا نظر آتی ہے۔ وہ اُن تخلیق کاروں میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف لفظوں کو زندگی دی بلکہ اُن کے ذریعے سماج، تہذیب، اور شعور کو بھی جِلا بخشی۔
اُن کا تخلیقی سفر ادب، صحافت، اور نشریات کے سنگم پر جاری رہا, ایک ایسا سفر جو محض پیشہ ورانہ کامیابی نہیں بلکہ فکری ارتقاء، جمالیاتی اظہار، اور قومی شعور کی آبیاری کا مظہر ہے۔ انہوں نے روایت اور جدیدیت کے درمیان ایک ایسا فکری اور جمالیاتی پُل تعمیر کیا جو آج بھی روشنی بانٹ رہا ہے، دلوں کو جوڑ رہا ہے، اور ذہنوں کو بیدار کر رہا ہے۔
اظہر نیاز کی تحریریں، پروڈکشنز، اور عوامی آگاہی مہمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ صرف لکھنے والے نہیں، بلکہ سوچنے، محسوس کرنے، اور معاشرے کو بہتر بنانے والے انسان ہیں۔ اُن کی خاموشی میں ایک گونج ہے، اُن کے الفاظ میں ایک روشنی، اور اُن کی خدمات میں ایک ایسی گہرائی جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
اظہر نیاز کی نشریاتی خدمات ایک عہد پر محیط ہیں, ایک ایسا عہد جس میں ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن جیسے قومی اداروں نے اُن کی تخلیقی صلاحیتوں، فکری پختگی، اور جمالیاتی ذوق سے بھرپور استفادہ کیا۔ وہ محض پروگرام پروڈیوسر نہیں تھے، بلکہ ایک ایسے تخلیق کار تھے جو آواز، خیال اور تہذیب کو ایک ہم آہنگ ترتیب میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے تھے۔ اُن کے تخلیق کردہ پروگرام محض تفریح نہیں تھے بلکہ شعور، اخلاق، اور قومی شناخت کے آئینہ دار تھے۔ ہر پروڈکشن میں ایک مقصد، ایک پیغام، اور ایک جمالیاتی ترتیب پوشیدہ ہوتی تھی جو سامعین کے دلوں پر براہِ راست اثر انداز ہوتی۔ اُن کی نشریاتی سوچ میں روایت کی گہرائی اور جدید تقاضوں کی آگہی کا حسین امتزاج تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مائیکروفون کے پیچھے صرف آواز نہیں، ایک ذمہ داری بھی ہوتی ہے, قوم کی فکری تربیت، تہذیبی بیداری، اور اخلاقی رہنمائی کی ذمہ داری۔
اظہر نیاز نے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور میڈیا کنسلٹنٹ اور عوامی آگاہی مہمات کے ماہر بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اُن کی مہمات میں نہ صرف پیغام کی سادگی بلکہ ثقافتی حساسیت، لسانی شائستگی، اور مقامی تناظر کی گہری سمجھ شامل ہوتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ عوام سے کیسے بات کی جائے، اُن کے دلوں تک کیسے پہنچا جائے، اور اُنہیں کسی اجتماعی بھلائی کے لیے کیسے متحرک کیا جائے۔ اُن کی تحریر، آواز، اور وژن نے مل کر ایک ایسا اثر پیدا کیا جو آج بھی سننے والوں کے ذہنوں میں گونجتا ہے۔
ادب کے میدان میں اظہر نیاز کا قلم کبھی خاموش نہیں رہا بلکہ وہ ایک ایسا چراغ رہا جو مسلسل روشنی دیتا رہا، مگر شور کیے بغیر۔ اُن کی شاعری میں ایک لطیف درد، فکری گہرائی، اور جمالیاتی توازن نمایاں ہے۔ وہ جذبات کو لفظوں میں یوں ڈھالتے ہیں کہ قاری نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ سوچنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ اُن کی غزلیں، نظمیں، حمد و نعت اور آزاد شاعری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نہایت سلیقے اور سچائی سے بیان کرتی ہیں جیسے محبت، رنج و الم، روحانی تلاش، اور سماجی شعور۔
اُن کے افسانے اور ناول اردو ادب کو ایک ایسا زاویہ عطا کرتے ہیں جو روایت سے جڑا ہوا ہے، مگر وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی۔ وہ کرداروں کے ذریعے انسانی نفسیات، معاشرتی تضادات، اور روحانی کشمکش کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ کہانی محض بیانیہ نہیں رہتی بلکہ ایک فکری تجربہ بن جاتی ہے۔ اُن کا ناول دوزخی اور افسانوی مجموعہ وزیٹنگ کارڈ اس کی عمدہ مثالیں ہیں، جن میں علامتی گہرائی اور فکری وسعت کا امتزاج پایا جاتا ہے۔
اخبارات جیسے جسارت، امت، خبریں اور تکبیر میں شائع ہونے والے اُن کے کالم فکری بصیرت اور ادبی لطافت کا حسین امتزاج ہیں۔ وہ معاشرتی مسائل پر اس انداز سے قلم اٹھاتے ہیں جیسے کوئی دانا بزرگ خاموشی سے سمجھا رہا ہو, بغیر شور، بغیر الزام، مگر پوری سنجیدگی، اخلاص، اور تہذیبی شائستگی کے ساتھ۔ اُن کے کالموں میں نہ صرف تجزیہ ہوتا ہے بلکہ ایک اخلاقی رہنمائی بھی ہوتی ہے، جو قاری کو سوچنے، سمجھنے اور بہتر بننے کی دعوت دیتی ہے۔
اظہر نیاز کا ادبی سفر اس بات کا ثبوت ہے کہ ادب صرف تخلیق نہیں، خدمت بھی ہے, ایک ایسی خدمت جو دلوں کو جوڑتی ہے، ذہنوں کو بیدار کرتی ہے، اور معاشرے کو آئینہ دکھاتی ہے۔ اُن کی تحریریں آنے والی نسلوں کے لیے نہ صرف مطالعے کا سامان ہیں بلکہ فکری تربیت کا ذریعہ بھی۔
اظہر نیاز نے وقت کے بدلتے تقاضوں کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اُن سے ہم آہنگ بھی ہوئے۔ انہوں نے یوٹیوب جیسے جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو اپنایا، جہاں وہ "قرآن اور مصنوعی ذہانت” جیسے پیچیدہ اور عصری موضوعات پر نہایت سنجیدہ اور فکری گفتگو کرتے ہیں۔ یہ اُن کی علمی وسعت، روحانی گہرائی، اور فکری تازگی کا مظہر ہے کہ وہ جدید ترین سائنسی اور سماجی سوالات کو دینی، اخلاقی اور تہذیبی تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کرتے ہیں۔ اُن کی گفتگو میں نہ صرف علم کی روشنی ہوتی ہے بلکہ ایک ایسا توازن بھی نظر آتا ہے جو روایت اور جدیدیت کے درمیان ایک فکری مکالمے کو جنم دیتا ہے۔ وہ سامعین کو صرف معلومات نہیں دیتے، بلکہ اُنہیں سوچنے، سوال اٹھانے، اور شعوری طور پر جڑنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اظہر نیاز کی یہ وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نہ صرف ماضی کے امین ہیں بلکہ مستقبل کے فکری معمار بھی۔
اظہر نیاز کی ادبی خدمات کا دائرہ شاعری، نثر، بچوں کے ادب اور تنقیدی تحریروں تک وسیع ہے۔ ان کی تحریریں فکری گہرائی، جمالیاتی توازن اور تہذیبی شعور کا حسین امتزاج پیش کرتی ہیں۔ وہ نہ صرف بالغ قارئین کے لیے لکھتے ہیں بلکہ بچوں کی ذہنی تربیت اور تخلیقی نشوونما کو بھی اپنی تحریروں کا حصہ بناتے ہیں۔ ان کی نمایاں کتب درج ذیل ہیں:
. دوزخی – ایک فکری اور صوفیانہ رنگ لیے ہوئے ناول
. وزیٹنگ کارڈ – افسانوں کا مجموعہ
. پورا چاند اور آدھا گیت – شاعری کا پہلا مجموعہ
. دوست نہ ہوں تو اچھا ہے – جذباتی اور فکری شاعری
. طلسم – علامتی اور جمالیاتی شاعری
. چاہنے والوں کو رونا چاہیے – درد اور محبت سے لبریز شاعری
. بچوں کے ادیب بنیے – بچوں کے لیے لکھنے کے فن پر ایک رہنما کتاب
. دھماکہ – بچوں کے لیے لکھا گیا دلچسپ اور سبق آموز ناول
یہ کتب اظہر نیاز کی فکری وسعت، زبان پر گرفت، اور انسانی جذبات کی عکاسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کی تحریریں نہ صرف پڑھنے والے کو متاثر کرتی ہیں بلکہ دیرپا اثر بھی چھوڑتی ہیں۔
شاعری میں اظہر نیاز نے حمد، نعت، غزل اور نظم جیسے اصناف پر طبع آزمائی کی، اور ہر صنف میں اپنی مخصوص فکری اور جمالیاتی پہچان قائم کی۔ اُن کی نثر میں ناول، افسانے، اور تنقیدی مضامین شامل ہیں، جو انسانی نفسیات، سماجی تضادات، اور روحانی تلاش جیسے موضوعات کو نہایت سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔
اظہر نیاز کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ خدمت، ادب، اور شعور کا سفر کبھی رکتا نہیں۔ وہ ایک ایسے مسافر ہیں جو روشنی بانٹتے ہیں، راستہ دکھاتے ہیں، اور خاموشی سے دلوں کو جوڑتے ہیں۔ اُن کی تحریریں، خدمات، اور اُن کی شخصیت آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی خزانہ ہیں, ایسا خزانہ جو وقت کے ساتھ اور بھی نکھرتا ہے۔
آغا ناصر پاکستانی ٹیلی ویژن، ریڈیو اور فلم کے معروف ڈائریکٹر، پروڈیوسر، اسکرین رائٹر اور شاعر تھے۔ وہ اپنے منفرد انداز، گہرے مشاہدے اور فن پر گہری دسترس کے لیے جانے جاتے تھے, اظہر نیاز صاحب کے بارے میں یوں کہتے ہیں:
پاکستان میں ٹیلی ویژن کو آئے ہوئے نصف صدی بیت چکی ہے، مگر افسوس کہ اردو زبان میں ٹیلی ویژن پروڈکشن پر کوئی جامع اور مستند کتاب منظرِ عام پر نہ آ سکی۔ کسی بھی زبان اور اس کے اظہار کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی فنی ضرورتوں، اصطلاحات، محاوروں اور وقت کی نزاکت کو جانا جائے۔ ٹیلی ویژن کا فن محض تحریر تک محدود نہیں بلکہ مکالمے اور بصری اظہار پر بھی یکساں انحصار کرتا ہے، اور اس کے قواعد و ضوابط سے آگاہی کے بغیر اس میدان میں کامیابی ممکن نہیں۔ ڈرامہ نگاری اور ہدایت کاری کے معیار پر بات کرنا بھی ایک الگ مہارت مانگتا ہے، اور یہی وہ پہلو ہے جسے اکثر ہمارے پروڈیوسر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ تخلیقی صلاحیت اللہ تعالیٰ کی دین ہے، جسے محض تربیت اور تعلیم سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بی بی سی ٹریننگ سینٹر میں ہمارے استاد کہا کرتے تھے: ’’رضا علی اور ذوق، ان ہی کے لیے بنائے جاتے ہیں‘‘۔ اظہر نیاز کی یہ کتاب اُن پروڈیوسروں کے لیے رہنمائی کا چراغ ثابت ہوگی جو غفلت اور لاعلمی کے باعث اس فن کے تقاضوں سے دور رہے ہیں۔ میں نے اسے ابتدا سے انتہا تک بغور پڑھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ اُن کی خامیوں کو کم کرے گی اور ان کے کام کو بافائدہ بنائے گی۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جو اظہر نیاز کی بے لوث اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعے ٹیلی ویژن کے اصولوں اور پروڈکشن کے اسرار و رموز کو آنے والی نسلوں تک پہنچائے گی۔