فکرِ انسانیت :بھکشو کا فلسفہ اور عہد جدید

میں غار میں داخل ہوا تو ایک غیر مانوس سی خوشبو تھی ، اندھیرا تھا ، خاموشی تھی، تنہائی تھی ،سکوت تھا ۔ تھوڑی ہی دیر میں اس سکوت کو ایک نہایت دلکش آواز نے یہ کہتے ہوئے توڑا کہ سادھوؤں اور بھکشوؤں کی دنیا میں تمہارا ہاردک سواگت ہے۔ وقت کی طنابیں سمٹ گئیں اور میں صدیوں پیچھے چلا گیا ۔

میں نے کہا ، یہ کیسی دنیا ہے ؟ ایک بھکشو کہنے لگا کہ جہاں شانتی ہے ، امن ہے ، گیان ہے ،جستجو ہے۔
یہ دنیا ،میری باہر کی دنیا سے کیسے الگ ہے ۔میں نے کہا۔

تمہاری باہر کی دنیا میں ایک دوڑ ہے ، صرف اپنی ذات کے لئے ، ہر طرف ،میں اور میرا ،کا شور گونج رہا ہے ۔ تم سب ایک دوسرے کے لئے بیگانے ہو ،اجنبی ہو ، اور اگر کوئی تعلق ہے تو وہ صرف دشمنی کا، نفرت کا ، منافقت کا۔نفرت اور منافقت اور برتری کے تعفن میں ، علم ،تہذیب اور جدت کی خوشبو ،گم ہو گئی ہے ۔

مگر یہ بدامنی اور منافقت ختم کیسے ہو گی ؟ میں نے پوچھا ۔ بھکشو کہنے لگا کہ دوڑ، سفر بن جائے گی تو بدامنی اور منافقت ختم ہو جائے گی ۔ دوڑ میں ایک ساتھ دوڑنے والے ، حریف ہوتے ہیں اور سفر میں ایک ساتھ چلنے والے ہم سفر ۔

میں نے پوچھا کہ یہ دوڑ ،کیسے سفر بنے گی ؟

تم میں سے جس کے پاس جو کچھ ،جتنا کچھ ہو وہ اس پر شکر گزار رہے ۔ جب تک کوئی دوسرا اپنی سوچ اور رویے سے یہ ثابت نہ کر دے کہ وہ تمہارا دشمن ہے ،اُس وقت تک اُس سے خوفزدہ ہو کر ،اُسے کسی قسم کا کوئی نقصان مت پہنچاؤ ، ورنہ تمہارا اپنا بھی وجود خطرے میں ہے ۔جو مضبوط اور طاقتور ہو وہ، کمزور کا سہارا بنے ، اس کی ہمت بڑھائے ،اسے ساتھ لے کر چلے ، دوڑ ،سفر بن جائے گی ۔بھکشو نے جواب دیا ۔

اور نفرت کیسے ختم ہو گی ؟

نفرت کبھی بھی نفرت سے ختم نہیں ہوتی ۔ نفرت محبت سے ہی ختم ہوتی ہے ۔ یہ دھرم کا نہیں، فطرت کا قانون ہے ۔ محبت وہ روشنی ہے جو تاریکی کو کافور دیتی ہے ۔

میں نے کہا کہ جب نفرت ، بدامنی ،کشمکش اور منافقت کا خاتمہ کر کے ،سفر طے کرنا ہے اور سفر طے کر کے بھی کسی منزل کو ہی حاصل کرنا ہے تو انسان کے اندر سرکش جذبات مثلاً انا ، خوف اور حرص وغیرہ بھی تو ہیں ،پھر انسان کیوں چاہے گا کہ اُس کے حاصل میں کوئی شریک ہو؟

بھکشو زیر لب مسکرایا ،مجھے اس مسکراہٹ میں صدیوں کی حکمت محسوس ہو رہی تھی ،کہنے لگا ،درست کہتے ہو ، یہی وہ مقام ہے کہ جہاں ایک ویکتی نے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ انسان ہے ۔اصل انسان وہ ہے جو اپنے سرکش اور بپھرے ہوئے جذبات پر قابو پا لے ۔ دراصل انسان نے جینا ہی سیکھا ہے ، مگر، ہونا ، نہیں۔ جینا ،تمہاری باہر کی دنیا کا علم ہے ، کماؤ، بڑھاؤ ،بڑھو ،حاصل کرو ،جیتو ۔

ہونا ،سادھوؤں اور بھکشوؤں کی اندر کی دنیا کا علم ہے ،سمجھو ،سنو ،تھمو ،جڑو، جوڑو ، بکھرو مت ۔

جانتے ہو ،تمہاری باہر کی دنیا میں بدامنی اور فساد کیوں ہے ؟

کیوں ہے ؟ میں نے پوچھا ۔

بھکشو نے اپنی چھڑی زمین پر ٹکائی اور کہنے لگا کہ جب انسان اپنی اپنی دوڑ دوڑتے ہیں تو ہر کوئی چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا مجھ سے پہلے منزل نہ پا لے ، یوں وہ دوسروں کے راستے میں روڑے اٹکاتا ہے ،کانٹے بچھاتا ہے ۔ایک کشمکش چلتی ہے ۔اسی کشمکش کی وجہ سے تمہاری باہر کی دنیا میں بدامنی ہے ،فساد ہے اور کوئی بھی کچھ حاصل نہیں کر پا رہا،سب کے ہاتھ خالی ہیں۔ جبکہ اگر انسان سمجھے تو "سبھی” بھی تو حاصل کر سکتے ہیں ۔

غار میں پھر خاموشی تھی ، اندھیرا تھا ، تنہائی تھی ، سکوت تھا مگر اب وہ خوشبو غیر مانوس نہیں رہی تھی ۔وہ خوشبو ان تعلیمات کی تھی ، حکمت کی تھی،معرفت کی تھی ۔

میں باہر نکلا ،جہاں میرے ہم سفر دوست، ملک طاہر سلیمان ، افتخار الدین صدیقی ، طاہر میر ،پروفیسر سید تراب شاہ،الیاس سکندر اور چوہدری آصف فرید ، میرے منتظر تھے ۔ جن کے ساتھ میں اُس راستے پر چل کر یہاں پہنچا تھا ، جو کبھی شیو اور اُن کی بیوی ، سلاطین ، علماء، بھکشوؤں ،سادھوؤں اور درویشوں کی گزرگاہ رہا تھا ۔

یہ غاریں 2400 سال پرانی بتائی جاتی ہیں جو کہ اسلام آباد کے گاؤں شاہ اللہ دتہ میں موجود ہیں ۔ شاہ اللہ دتہ گاؤں کا نام مغلیہ عہد کے ایک درویش کے نام پر رکھا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے