پاکستان اور افغانستان دونوں اس خطے کے وہ ممالک ہیں جنہیں تاریخ، تہذیب، ثقافت، مذہب، زبان اور جغرافیہ نے ایک دوسرے سے اس طرح جوڑا ہے کہ یہ رشتہ کسی ایک حکومت یا ایک پالیسی کے بدلنے سے ٹوٹنے والا نہیں۔ لیکن افسوس کہ پچھلی کئی دہائیوں سے یہ تعلق مسلسل غلط فہمیوں، سیاسی کھینچا تانی، پروپیگنڈے اور باہمی بے اعتمادی کی بھینٹ چڑھتا آرہا ہے۔
اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ طورخم کی بندش سے ایک ماہ میں افغانستان کو 45 ملین ڈالر کا نقصان ہوا اور افغانستان سے تجارتی بندش عام پاکستانی کی زندگی پر تقریباً کوئی اثر نہیں پڑا۔
طورخم بارڈر کی بندش سے ایک ماہ میں افغانستان کو 45 ملین ڈالر کا نقصان ہوا چند ہفتوں میں افغانستان کیلئے تمام سرحدوں کا مجموعی نقصان 200 ملین ڈالر سے تجاوز کر گیا، 5000 سے زائد ٹرک پھنسے اور افغان فصلیں و پھل جو پاکستان میں منڈی کے انتظار میں تھے وہ یا تو خراب ہو گئے یا پھر انہیں افغانستان میں ہی انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنا پڑا۔
بارڈر پر کشیدگی اور بار بار بندش نے اس تعلق کو مزید کمزور کیا ہے۔ میں نے جب اس معاملے پر مختلف حلقوں سے بات کی معاشی ماہرین سے، پاک افغان چیمبر آف کامرس کے ذمہ داروں سے، صحافیوں سے، تاجروں سے تو سب کا ایک ہی مؤقف تھا کہ: یہ کشیدگی دونوں طرف کے عوام کو مالی طور برباد کر رہی ہے خاص طور پر خیبر پختونخوا اور پلوچستان کے تاجروں، مزدوروں اور بارڈر کے رہائشيوں کو۔
اس حوالے سے اسلام آباد کے ایک معروف تاجر جہانگیر خان نے کہا کہ بارڈر کی بندش سے افغان تاجروں سمیت پاکستانی تاجروں کو بھی بہت نقصان ہوتا ہے کیونکہ افغانستان پھلوں کی بہت بڑی منڈی ہے، سبزی کی بھی وسیع مارکیٹ ہے۔ پاکستان کے تاجر ہر سیزن میں افغان کسانوں کو کروڑوں روپے ایڈوانس دیتے ہیں تاکہ وہ کاشت کریں، فصل اگائیں اور وہ فصل بعد میں پاکستان کی منڈیوں تک پہنچ سکے۔ مگر بارڈر بند ہونے کی وجہ سے تاجروں کے وہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے اسی طرح پھننس کر رہ گئے ہیں۔ اگر تجارت جلد بحال نہ ہوئی تو یہ تمام سرمایہ ڈوب جائے گا جو ظاہر ہے کہ پاکستانی تاجروں کے لیے ایک بڑا مالیاتی بحران بن جائے گا۔
پاک افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے نمائندہ اور پشاور چیمبر آف کامرس کے صدر شاہد خان نے معاشی تباہی کے حجم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ: میں نے ایک مہینہ پہلے ہی پاکستانی تاجروں کے نقصان کی نشاندہی کی تھی کہ روزانہ ایک سے ڈیڑھ ارب روپے پاکستان کو نقصان ہورہا ہے اور افغان تاجروں کا نقصان اس سے دو سے تین گنا زیادہ ہے۔ ان کا مال کراچی پورٹ پر بند ہے اور سرمایہ پھنسا ہوا ہے۔ بارڈر جتنا بند رہے گا نقصان اتنا ہی دگنا تگنا ہوتا جائے گا۔
شاہد خان نے خیبر پختونخوا کے تباہ حال کاروبار کا ذکر کرتے ہوئے کہا: خیبر پختونخوا کی پچاس فیصد معاشی سرگرمی افغانستان سے جڑی ہے۔ بارڈر جتنا بند رہے گا کاروبار اتنا ہی تباہ ہوگا۔ انڈسٹری بند ہے، ٹرانسپورٹ بند ہے، مزدور بیروزگار ہے، تجارت معطل ہے اور لوگ قرضوں میں ڈوب رہے ہیں۔
ان کے بقول“یہ بات ٹھیک ہے کہ تجارت میں نقصان بھی ہوتا ہے، پورا بھی ہو جاتا ہے اور کئی بار ختم بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کس سمت جا رہے ہیں؟ دونوں ممالک حالات کی جس چکی میں پس رہے ہیں کیا وہ اس دباؤ سے نکل بھی پائیں گے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر بیٹھیں بات چیت کریں مسائل کو سمجھیں اور باہمی اعتماد کی فضا قائم کریں۔کیونکہ پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے اور جب پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے تو پھر تعلقات بھی لازماً اچھے ہونے چاہیئے اس سے عوام کو فائدہ ہوگا،حکومتوں اور ریاستوں کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا: اگر پاکستان چین کے راستے گلگت بلتستان کے ذریعے سنٹرل ایشیا تک تجارت کرے تو اخراجات بہت بڑھ جائیں گے یا افغانستان کراچی کی بجائے ایران کے رستے سے تجارت شروع کرے تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ جو چیز آج کم قیمت میں ملتی ہے وہ کئی گنا زیادہ قیمت پر عوام تک پہنچے گی تو اس سے مہنگائی مزيد بڑھے گی۔
اسی لیے شاہد خان کا مؤقف تھا کہ: ایسا مستقل میکنزم بنانا ضروری ہے جس سے پہلے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہوں۔جب تعلقات بہتر ہوں گے تو کاروبار خود بخود ٹھیک چل پڑے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملکوں کے تعلقات کو تجارت پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیئے۔اگر تجارت مستقل جاری رہے تو پاکستان کا تاجر بھی خوش رہے گا افغانستان کا تاجر بھی اور عوام کو بھی سہولت ملے گی مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا۔
اقتصادی ماہر پروفیسر ڈاکٹر معراج الدین نے اس مسئلے کی اصل تصویر یوں واضح کی اور کہا کہ دنیا اب گلوبلائزیشن سے بھی آگے ریجنل انٹیگریشن کی طرف بڑھ گئی ہے۔ ہر خطے کے ممالک ٹریڈ یونینز بنا رہے ہیں تاکہ عوام کو معیاری اشیاء آسانی سے میسر ہوں۔ پاکستان اور افغانستان جن میں مذہب، نسل، ثقافت اور تاریخ کی مشترکہ لڑی موجود ہے ان کے تعلقات سب سے مضبوط ہونے چاہئیں تھے مگر بدقسمتی سے عشرے گزر گئے مگر تعلقات کبھی مستحکم نہ ہو سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ: افغانستان بندرگاہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے کراچی پورٹ پر مکمل انحصار کرتا ہے اور جب بارڈر بند ہو جاتا ہے تو افغان تاجروں کے مال بندرگاه پر رُکے رہتے ہیں نقصان ہوتا ہے اور یہی نقصان پاکستان کی منڈیوں تک بھی پہنچتا ہے۔ سبزی اور فروٹ نہ آنے سے یہاں نرخ آسمان کو چھونے لگتے ہیں۔ یہ مشترکہ خسارہ ہے اس میں ایک فریق بھی محفوظ نہیں رہتا۔ اور ادھر پاکستان میں جو مينوفیکچرنگ اور انڈسٹری سے وابستہ لوگ ہیں ان کا کاروبار بھی مکمل طور پر رک چکا ہے۔مختصر یہ کہ دونوں طرف کے عوام اور تاجروں کو بے حد بھاری نقصانات کا سامنا ہے۔
معروف صحافی اور تجزیہ کار شمس مومند کہتے ہیں کہ بارڈر بندش صرف ایک لکیر نہیں روکتی بلکہ ایک پورا معاشی نظام منجمد کر دیتی ہے
پشاور سے طورخم تک، وزیرستان سے غلام خان تک اور کوئٹہ سے چمن تک ہر علاقہ اس بندش کی چوٹ کھا رہا ہے۔ ہوٹل والا، پنکچر والا، مزدور، ٹرانسپورٹر، ڈرائیور اور تاجر کوئی ایسا نہیں جسے نقصان نہ ہوا ہو۔ تجارت رک جائے تو چولہے ٹھنڈے پڑتے ہیں قرضے بڑھتے ہیں اور مستقبل دھندلا جاتا ہے۔
شمس مومند نے ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ: جنگ اور بارڈر کی بندش کی قیمت وہ لوگ ادا کرتے ہیں جن کے پاس نہ سرمایہ ہے نہ ضمانت، نہ طاقت لہذا سرحد کو سزا اور لڑائی کی بجائے امن کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
بدقسمتی سے افغانستان میں جمہوری حکومت موجود نہیں طالبان برسرِ اقتدار ہیں اور پاکستان میں بھی ایسے حکومتیں آتی ہیں جو عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور نہ ہی مکمل طور پر فیصلہ سازی میں آزاد ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک عوام کے فیصلوں سے نہیں بلکہ سیاسی دباؤ کے زیرِ سایہ چلائے جاتے ہیں۔ ایسی فضا میں عوام کی خواہشات اور امیدیں فیصلہ کرنے والوں کی میز تک نہیں پہنچتیں تو درد صرف عوام ہی سہتے ہیں۔
شمس مومند اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ترکیہ، ایران اور روس خطے کی معیشت اور استحکام میں اہم کردار ادا کریں تاکہ مسقتل بنیاد پر امن اور بھائی چارہ قائم ہو ۔ جب تک خطے میں امن نہیں ہوگا نہ تجارت آگے بڑھے گی، نہ صنعت ترقی کرے گی اور نہ ہی عوام بہتر زندگی کی سانس لے سکیں گے۔
ان کشیدہ حالات میں ایک اور اہم بیان ملا عبدالغنی برادر کی طرف سے سامنے آیا جس نے واضح اعلان کیا کہ دو مہینے کے اندر اندر افغانستان کے تمام تاجر پاکستان سے اپنا سامان نکال لیں۔ اس کے بعد نہ ہم پاکستان سے دوائیں لیں گے نہ تجارت کریں گے۔
یہ اعلان دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تلخی، بے اعتمادی اور سیاسی کشیدگی کی سنگین علامت ہے۔ ملا برادر کے اس بیان نے بارڈر کمیونٹی میں خوف اور پریشانی پیدا کر دی ہے۔ تاجر، مزدور اور سرمایہ کار سب حیران اور مضطرب ہیں کیونکہ یہ قدم نہ صرف کاروبار کو بند کر دے گا بلکہ مقامی معیشت اور روزگار پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
اس تمام گفتگو کے بعد چاہے وہ صحافیوں کے ساتھ تھی، پاک افغان چیمبر کے نمائنده کے ساتھ، معاشی ماہرین کے ساتھ یا تاجروں کے ساتھ تھی تو ایک بات بالکل واضح ہو کر سامنے آئی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو کشیدگی اور تنازعات چل رہے ہیں انہیں ختم ہونا چاہیے اور تجارت کو بحال ہونا چاہیے۔
ہر فرد کا ایک ہی مؤقف تھا کہ اس صورتِ حال کا نقصان باقی پاکستان کو بالعموم مگر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے تاجروں، مزدوروں، ٹرانسپورٹرز اور دیہاڑی دار طبقے کو بالخصوص ہو رہا ہے۔ روزگار رکا ہوا ہے، سرمایہ پھنسا ہوا ہے، ٹرانسپورٹ ساکت ہے اور عام آدمی کو گھر اور بچے پالنا محال ہو رہا ہے۔ میرے خيال میں کہ اگر پاکستان اور افغانستان دوبارہ بیٹھ کر مذاکرات کریں ایک دوسرے کے درمیان موجود غلط فہمیاں، کشیدگیاں اور مسائل ختم کریں تو دونوں ممالک کی تجارت دوبارہ بحال ہو سکتی ہے۔ اور جب تجارت چلے گی تو نہ صرف سرحدی علاقوں کی معیشت سنبھلے گی بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کو براہِ راست فائدہ پہنچے گا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملک یہ سمجھیں کہ“جنگ، دشمنی اور بارڈر بندش کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ تجارت، امن اور باہمی تعاون ہی دونوں ممالک کے مستقبل کی ضمانت ہیں۔”