ترمیمات کی سیاست: طاقت کا کھیل، عوام کا نہیں

آئین، ترمیمات، قانون… حکومتیں ان کو بڑی کامیابی بنا کر پیش کرتی ہیں، مگر حقیقت میں ان میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ نوآبادیاتی یا نیم نوآبادیاتی نظام میں آئین کوئی سماجی معاہدہ نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک دکھاوا ہوتا ہے۔ جنرل ضیا نے ٹھیک کہا تھا کہ "یہ ایک کاغذ ہے، میں جب چاہوں اسے پھاڑ سکتا ہوں”۔ پاکستان کی تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ غلط نہیں تھا۔ پاکستان بننے کے پہلے دن سے کوئی بھی آئین — عبوری ہو، 1956 ہو، 1962 ہو یا 1973 — طاقتور کے سامنے کبھی نہیں ٹھہرا۔ سب آئے، تعریف ہوئی، اور آخرکار کسی طاقتور کے حکم پر ختم ہوگئے۔

اصل میں آئین ہوتا کیا ہے؟ یہ صرف ایک تحریر نہیں بلکہ وہ بنیادی دستاویز ہے جو ریاست کے اندرونی اور بیرونی معاملات چلاتی ہے۔ مگر آئین کبھی خلا میں نہیں بنتا۔ یہ تاریخ، تہذیب، نظریے، سیاست، معاشرتی جدوجہد اور معاشی حالات سے بنتا ہے۔ دنیا کے ہر آئین کے پیچھے ایک طویل پس منظر ہوتا ہے۔ مگر ہمارا آئین ایسے کسی عمل سے نہیں گزرا۔ یہ نہ عوامی تحریکوں کا نتیجہ تھا، نہ کسی سماجی معاہدے کا، نہ کسی معاشی انصاف کا۔ اس کو طاقتوروں نے اپنے فائدے کے مطابق لکھا، بدلا، لٹکایا، معطل کیا، اور دوبارہ زندہ کیا۔

اسی لیے یہ آئین عوام کی زندگی سے کبھی جڑ نہ سکا۔ عوام نے اسے نہ بنایا، نہ اپنایا، نہ اس کی روح میں ان کی خواہش شامل ہوئی۔

آئین کی تمہید اصل میں “قراردادِ مقاصد” ہے۔ یہ 1949 میں منظور ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اُس وقت کی آئین ساز اسمبلی کو ایسی قرارداد منظور کرنے کا اختیار تھا؟ نہیں تھا۔ وہ برطانوی نظام کا تسلسل تھی، عوام کے ووٹ سے نہیں بنی تھی۔ لیکن اسی غیر نمائندہ اسمبلی نے ایک ایسی قرارداد منظور کی جس نے آئندہ آئین کو ایک مبہم نظریاتی دائرے میں بند کر دیا۔ یہ عوامی منشور نہیں تھا بلکہ طاقت کا سیاسی ہتھیار تھا۔

آئین کی تمہید میں وعدے کیے گئے کہ
— عوام کو اختیار حاصل ہوگا،
— وفاق مضبوط ہوگا،
— جمہوریت چلے گی،
— انصاف ہوگا۔

مگر روزانہ یہ وعدے ٹوٹتے ہیں۔ اگر عدالتی نظرِ ثانی واقعی موجود ہوتی تو سپریم کورٹ ان خلاف ورزیوں کو کالعدم قرار دیتی۔ مگر سپریم کورٹ نے ہمیشہ خاموشی اختیار کی، بلکہ ضیا کے دور میں اس قرارداد کو اور مضبوط بنا دیا۔

یعنی عدالت بھی اسی طاقت کے ڈھانچے کا حصہ رہی۔

عدالت کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا جرم "نظریۂ ضرورت” پیدا کرنا تھا۔ اس نظریے کے تحت ہر مارشل لا کو جائز قرار دیا گیا۔ ایوب خان، ضیا، مشرف — سب کو عدالت نے قانونی حیثیت دی۔ ججز نے PCO کے تحت حلف لیے۔ عدالتوں نے آئین کو توڑا، گھمایا، اور طاقتور کے حکم پر چلایا۔

آج لوگ سپریم کورٹ کی “موت” پر ماتم کرتے ہیں، مگر سوال یہ ہے: کیا کبھی یہ عدالت عوام کے ساتھ کھڑی ہوئی؟ کبھی نہیں۔

1973 کا آئین بھی بہت تعریفوں کے ساتھ آیا، مگر چھ مہینے بعد ہی بھٹو نے اسے موڑ دیا۔ بنیادی حقوق معطل کیے، اپوزیشن کو دبایا، اور بلوچستان اسمبلی کو توڑ دیا۔ پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا۔ اس وقت آئین کہاں تھا؟ کہیں نہیں۔ طاقت کے سامنے خاموش۔

18ویں ترمیم بھی بہت بڑی جیت قرار دی گئی، مگر عوام کو کیا ملا؟ سندھ سے پوچھیں کہ NFC کا پیسہ کہاں گیا؟ کون سا ضلع ترقی کر گیا؟ کون سی وزارت بہتر ہوئی؟ کوئی جواب نہیں۔ طاقت نیچے آئی، مگر کرپشن بھی نیچے آئی۔ عوام وہیں رہے جہاں پہلے تھے۔

آج بھی آئین، ترمیمات، عدالتیں — سب ایک دکھاوا ہیں۔ ایک بیرونی دنیا کو دکھانے کے لیے کہ یہاں جمہوریت ہے، ادارے ہیں، آئین ہے۔ حقیقت میں طاقت کہیں اور ہے۔

یہ کوئی نیا کھیل نہیں۔ انگریز بھی یہی کرتے تھے۔ انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ بنائیں تاکہ دنیا کو دکھایا جائے کہ ہندوستان میں سیاسی آزادی ہے۔ ایلیکشن کرائے، مگر طاقت وائسرائے کے پاس رہی۔ وہی دھوکہ آج بھی ہے۔ صرف کردار بدلے ہیں، طریقہ وہی ہے۔

آئین، تمہید، عدالت — سب ظاہری سامان ہیں۔ یہ عوام کی نہیں، طاقتوروں کی حفاظت کرتے ہیں۔

جب تک طاقت واقعی عوام سے نہیں نکلے گی، کوئی آئین، کوئی ترمیم، کوئی عدالت عوام کا تحفظ نہیں کرے گی۔ یہ سب صرف طاقتوروں کے کام آئیں گے، عوام کے نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے