لاہور ایئرپورٹ پر پھنسنا

23 ستمبر 1999 کو گھر والوں اور قریبی دوست احباب سے مل کر لاہور کے پرانے ایئرپورٹ پر موجود تھا، بورڈنگ کا مرحلہ آیا، پاسپورٹ و ٹکٹ پیش کیا، افسر نے کی بورڈ پر انگلیاں گھمائیں، میرا پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑا، میرے چہرے کی طرف دیکھا، پھر پاسپورٹ کو دیکھا، پھر پوچھا "پہلا پاسپورٹ کہاں ہے؟”،

میں نے جواب دیا "یہ میرا پہلا پاسپورٹ ہے.” افسر نے ایک دو سوالات کے بعد پاسپورٹ مجھے واپس تھما دیا اور بولا "ایک سائیڈ پر ہو جاؤ.”، میں حیران و پریشان "یا الٰہی اب یہ کیا ماجرا ہے.”، ایئرپورٹ آتے وقت کتنا خوش تھا اور یہاں گھمبیر صورت حال، ایک دو مرتبہ آگے بڑھ کر آفیسر کی توجہ مبذول کروانا چاہی لیکن افسر وہی الفاظ دہرا دیتا "اپنا پہلا پاسپورٹ لاؤ.”

اسی اُدھیڑ بُن میں تقریبا دو گھنٹے گذر گئے اور میں بہت زیادہ پریشان کہ اگر گھر واپس گیا تو کیا منہ دکھاؤں گا، ابا جی نے میری بیرون ملک پڑھائی کی خواہش پوری کرنے کیلئے لمبا چوڑا خرچہ کیا ہے، ہزاروں سوالات ذہن میں گھومنا شروع ہو گئے، میں تقریبا مایوس ہو چکا تھا، فلائٹ کی روانگی میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ ایک افسر میرے پاس آیا، پوچھتا "اتنی دیر سے کیوں کھڑے ہو؟”

میں نے اسے ماجرا بتایا کہ امتحانات کی وجہ سے پاسپورٹ بنوانے گوجرانوالہ نہیں جا سکتا تھا لہذا ہانچ ہزار دیکر لاہور سے پاسپورٹ بنوایا، اب بورڈنگ کارڈ نہیں مل رہا، اتفاق سے گورنمنٹ کالج لاہور کا سٹوڈنٹ کارڈ میرے پاس تھا، اسے وہ بھی دکھایا، یہ سن کر وہ بولا "میں بھی وہیں سے پڑھا ہوں، میرے ساتھ آؤ .” اس مہربان کی مدد سے بورڈنگ کارڈ ملا اور میں امیگریشن کے مراحل طے کرتا ڈیپارچر لاؤنج میں پہنچ گیا.

ڈیپارچر لاؤنج میں بیٹھا آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہا، گرچہ بہت بہت رونق تھی لیکن میرے دل ودماغ میں ہوائیاں اُڑ رہی تھیں، بہتر مستقبل کی خواہش میں غلطی کر بیٹھا یا درست فیصلہ، اس کا تعین آنے والے وقت نے کرنا تھا، میری طرح کچھ نئے سٹوڈنٹ تھے اور کچھ پرانے، کچھ کاروباری طبقہ، میں ڈرا سہما ایک طرف بیٹھا، کسی سے بات نہیں کر رہا، ساتھ بیٹھا ایک مسافر بھی الماتی جا رہا تھا، بھاری بھرکم وجود، قد سوا پانچ فُٹ، شربتی موٹی آنکھیں، ملک یوسف فرام فیصل آباد، اس نے خود کو بزنس مین بتایا، ادھیڑ عمر کا ایک پہلوان ٹائپ نظر آیا، کندھے پر بیگ لٹکائے، کبھی اِدھر جا رہا تو کبھی اُدھر، فلائٹ اناؤنس ہوئی، زندگی میں پہلی مرتبہ بیرون ملک سفر کا اتفاق ہو رہا تھا تب قومی ایئر لائن کا اچھا نام تھا، ملک یوسف نے ایک دو مرتبہ مخاطب کیا لیکن میں خاموش، جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا تو گویا کلیجہ اُچھل کر حلق میں آ گیا، میری چیخیں بلند ہوگئیں، ایئرہوسٹس کے سمجھانے پر میں اپنی سیٹ بیلٹ کو مضبوطی سے تھامے چُپ چاپ بیٹھا، بڑی مشکل سے خوف پر قابو پایا، پہلا تجربہ تھا، کچھ سمجھ نہ آئے کہ کیا ہو رہا ہےاور آگے کیا ہوگا، یہ فقط اللہ جانتا تھا، اور اللہ پر ہی توکل کرکے آنکھیں بند کرلیں۔

جہاز جیسے ہی ہوا میں بلند ہوا میں بآواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا، پائلٹ پرواز ہموار کرنے کیلئے دائیں بائیں حرکت کرتا تو میری چیخیں نکلتیں، کچھ سواریاں محظوظ ہو رہی تھیں، بالآخر پرواز ہموار ہوئی تو سُکھ کا سانس آیا، ایک گھنٹے بعد ایئرہوسٹس نے کھانا پیش کرنا شروع کیا، کھانے میں بریانی تھی، میں کافی دیر کھانا سامنے رکھ کر دیکھتا رہا، ایک دو لقمے لئے لیکن وہ بھی حلق سے نیچے نہ اتریں، کھانا ویسے ہی چھوڑ دیا، ایئرہوسٹس واپس آئی تو کھانا ویسے ہی پڑا دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا "فرسٹ ٹائم ٹریول؟”، میں نے جواب دینا چاہا لیکن زبان چپک کر تالو سے جا لگی، اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا، وہ بولی "بھوکے مت رہو، کچھ کھا لو .”، چارو ناچار پھر سے کھانا چاہا لیکن لقمہ ہاتھ سے منہ تک نہ جائے، کھانا ویسے ہی چھوڑ دیا، ملک یوسف نے دیکھا تو زبردستی کھلانا چاہا لیکن میری بھوک وپیاس حقیقی معنوں میں ختم ہوچکی تھی.
لگ بھگ دو گھنٹے پرواز کے بعد جہاز کسی ایئرپورٹ پر اترا، کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا،

Ташкент
لکھا نظر آیا، اتنا اندازہ ہوگیا کہ رشین حروف تہجی میں لکھا ہے اور تاشقند پہنچ چکے ہیں، اجاڑ بیابان، فقط ہمارا جہاز ایئرپورٹ پر موجود، باقی کوئی چیز دور دور تک دکھائی نہ دی، اتنے میں کچھ لوگ فوجی وردی میں ملبوس، بڑے بڑے ہیٹ سر پر رکھے طیارے کے اندر آئے، آہنی روس بارے جو کہانیاں پڑھ رکھی تھیں وہ ذہن میں آن کودیں، خیریت ہی رہی جو ان کے پیچھے ازبک خواتین ہاتھ میں سامان صفائی پکڑے نظر آئیں.

یہاں ایک گھنٹہ قیام کے بعد جہاز کو الماتی کیلئے روانہ ہونا تھا، دعائیں مانگ مانگ کر ایک گھنٹہ گذارا، جہاز نے دوبارہ ٹیک آف کیا تو اس مرتبہ میری حالت پہلے سے کچھ بہتر تھی، چیخیں نہیں ماریں، سارا سفر خاموشی طاری رہی، ملک یوسف مجھ سے بات کرے لیکن میں مجسم بُت بنا رہا جسے نہ کچھ سنائی دیتا، نہ بول سکتا اور نہ دیکھ سکتا، سب سے زیادہ مت لاہور ایئرپورٹ پر عملے نے ماری تھی، ان کا غیر پروفیشنل رویہ بہت بڑی پریشانی تھا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے