اساتذہ کو شوکاز نوٹس

اسے بڑی بدقسمتی نہیں کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ ہمارے ملک میں اساتذہ کرام، جو علم کے مینار اور قوم کے معمار ہیں، آج انتہائی مجبور، بے بس اور مقہور بنا دیے گئے ہیں۔

2000 سے لے کر 2025 تک میں نے اسکول، کالج، یونیورسٹی اور مدارس و جامعات کے اساتذہ کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کے مسائل، ان کی مشکلات، ان کی سوچ و فکر، ان کی معاشرتی حیثیت، اور بالخصوص دفاتر اور حکومتی اداروں میں ان کے ساتھ کیا جانے والا ناروا سلوک سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے۔

جس معاشرے میں استاد جیسی عظمت کی شخصیت کو اس قدر ذلیل کیا جاتا ہو، وہ معاشرہ یقیناً ایک مفلوج، کھوکھلا اور رذیل معاشرہ بن جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ رذالت کی انتہا کو چھو رہا ہے۔

آج ایک محترم استاد کا وائس میسج موصول ہوا۔
ان کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے، شاید ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان نے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں اساتذہ کو یہ نوٹس بھیجے ہیں۔ ان میں وہ ضعیف العمر استاد بھی شامل ہیں جن کی ریٹائرمنٹ میں شاید دوچار سال باقی ہیں۔ ان کا درد بھرا پیغام سنتے ہوئے دل کانپ گیا آواز میں شکست تھی، لہجے میں مایوسی، اور دل میں بے بسی کی چیخیں۔ وہ سیدھے سادھے انسان ہیں، افسر شاہی کی خرمستیوں، تکبر اور کاغذی عیاشیوں سے واقف نہیں۔

میں نے اپنے تئیں انہیں حوصلہ دیا… مگر سچ یہ ہے کہ اندر سے میں خود ٹوٹ کر رہ گیا۔ اپنے استادِ محترم کی بیچارگی نے دل کو زخمی کر دیا، لیکن جب سوچا تو یاد آیا کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے میں خود بھی کچھ لوگوں کی انا کی بھینٹ چڑھا ہوا ہوں۔ کیونکہ… میں بھی ایک استاد ہوں!

مجھے نہیں معلوم کہ کردہ یا ناکردہ کس جرم کے بدلے سینکڑوں ان اساتذہ کرام کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ گرم، نرم، اے سی والے دفتروں میں بیٹھے فرعونی ذہنیت رکھنے والے افسر نما قماش کے لوگ نہ تو استاد کی قدر سے واقف ہیں، نہ ان کے مسائل و مشکلات سے کوئی دل چسپی رکھتے ہیں۔ چند کاغذوں پر دستخط کرکے، چند الفاظ ٹائپ کرکے، یہ لوگ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتے ہیں۔

ان کی کرسی کا نشہ اور حرام خوری کی لت انہیں اتنا بدقماش بنا چکی ہے کہ ہزاروں طلبہ و طالبات کے مستقبل بنانے والے اساتذہ کو ٹارچر کرنا ان کے لیے معمول کی بات بن گئی ہے۔ اور دوسری طرف یہ اساتذہ علم کے مشعل بردار کسمپرسی، ناداری اور بے بسی میں پس رہے ہیں، اپنی عزت بچاتے بچاتے ٹوٹ رہے ہیں۔

آخر کب تک…؟
آخر کیوں…؟
کیا استاد کی عزت اس سرزمین پر جرم بن گئی ہے؟

یہ ساری صورتحال بلکہ اس سے بھی خراب صورت حال پر
دل کی گہرائیوں سے یہ دعا نکلتی ہے

اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو ہدایت دے۔ اگر ان کے مقدر میں ہدایت نہیں… تو پھر اے اللہ! ان کے ظلم کے مقابلے میں اپنی شانِ کبریائی کے مطابق فیصلہ فرما۔
کیونکہ استاد کی آہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے