یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے ہر ترقی یافتہ معاشرے کے پسِ منظر میں ایک مضبوط، فعال اور متوازن جمہوریت کھڑی ہوتی ہے۔ جمہوریت محض ایک نظامِ حکومت نہیں بلکہ انسان کی اجتماعی ترقی، آزادی اور وقار کا جامع طریقہ ہے۔ یہ وہ نظم ہے جو ریاست کو شہریوں کے سامنے جوابدہ بناتا ہے اور معاشرے کو ظلم، جبر اور آمرانہ طرزِ حکمرانی سے محفوظ رکھتا ہے۔ جب کسی ملک میں جمہوریت مضبوط ہوتی ہے تو اس کا سب سے پہلا اثر عوام کے ذہنوں میں اعتماد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اعتماد کہ ان کی آواز سنی جاتی ہے اور ان کی رائے کا وزن ہے۔
پھلتی پھولتی جمہوریت کا سب سے بنیادی فائدہ یہ ہے کہ ادارے شخصیات کے تابع نہیں رہتے بلکہ آئین اور قانون کے پابند ہوتے ہیں۔ ریاستی طاقت چند ہاتھوں میں محدود نہیں رہتی بلکہ مختلف اداروں کے درمیان تقسیم ہو کر متوازن ہوتی ہے۔ یہی ادارہ جاتی توازن معاشرے کو سیاسی انتشار اور طاقت کے غلط استعمال سے بچاتا ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو مستحکم جمہوری نظام کے حامل ہیں، وہاں اہم فیصلے کسی ایک فرد یا گروہ کی خواہش پر نہیں بلکہ اجتماعی مشاورت سے ہوتے ہیں۔
عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکمرانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں، سوال پوچھیں اور جواب طلب کریں۔ یہ احساس حکمرانوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ عوامی مفاد میں پالیسیاں بنائیں، کیونکہ اقتدار کا تسلسل عوامی رائے سے جڑا ہوتا ہے۔ یہی شفافیت معاشرے میں کرپشن کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہے اور حکومتی عملداری کو زیادہ مؤثر بناتی ہے۔
ایک فعال جمہوریت میں اختلافِ رائے کو دشمنی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اسے فکری طاقت اور سیاسی صحت کی علامت مانا جاتا ہے۔ مختلف نظریات اور نقطۂ نظر جب ایک میز پر جمع ہوتے ہیں تو بہترین حل سامنے آتے ہیں۔ جمہوریت میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق اظہار کرے۔ یہی آزادیِ اظہار معاشروں کو ذہنی جمود سے نکال کر فکری ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔
جمہوریت کا ایک بڑا فائدہ معاشی استحکام ہے۔ سرمایہ کار ہمیشہ ایسے ماحول کو ترجیح دیتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو، پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے اور حکومتیں اچانک بدلنے یا زبردستی گرانے کے خطرات کم ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ مضبوط جمہوری ممالک میں معاشی ترقی دیرپا اور مستحکم ہوتی ہے۔ جمہوریت معاشی مواقع کو مخصوص طبقات تک محدود نہیں رہنے دیتی بلکہ اُنہیں عام شہریوں تک پہنچاتی ہے۔
جمہوریت سماجی انصاف کی بنیاد بھی مضبوط کرتی ہے۔ یہ ریاست پر لازم کرتی ہے کہ وہ شہریوں کو تعلیم، صحت، روزگار، انصاف اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے۔ عام آدمی کو اپنی زندگی بہتر بنانے کے مواقع ملتے ہیں اور اس کی جسمانی، سماجی اور معاشی حالت بہتر ہوتی ہے۔ جمہوریت میں طاقتور اور کمزور دونوں قانون کے سامنے برابر ہوتے ہیں جس سے معاشرے میں انصاف اور احترام کی فضا فروغ پاتی ہے۔
بہتر جمہوری معاشرہ انسانی حقوق کی حفاظت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔ اقلیتوں، خواتین، محنت کشوں اور کمزور طبقات کو وہ حقوق حاصل ہوتے ہیں جو انہیں ایک باوقار زندگی گزارنے کے قابل بناتے ہیں۔ معاشرے میں خوف کم اور اعتماد زیادہ ہوتا ہے، جس کا مجموعی اثر ایک مثبت اور ہم آہنگ سماج کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
جمہوریت سیاسی تربیت کا ذریعہ بھی ہے۔ اس میں ہر فرد سیاسی عمل کا حصہ بنتا ہے، اپنے حقوق اور فرائض سمجھتا ہے اور سیاسی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی شعور معاشرے میں بیداری پیدا کرتا ہے اور لوگ جذباتیت کے بجائے دلیل اور قانون کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
ایک مضبوط جمہوریت اختلافات کو حل کرنے کا پُرامن راستہ فراہم کرتی ہے۔ سیاسی بحرانوں کے باوجود ریاست کا تسلسل برقرار رہتا ہے کیونکہ معاملات بات چیت، پارلیمنٹ، عدالتوں اور آئینی طریقہ کار کے ذریعے حل ہوتے ہیں۔ یہی نظام ملک کو خانہ جنگی، ٹکراؤ اور غیر آئینی مداخلتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
جمہوریت معاشرتی ترقی کو صرف شہروں تک محدود نہیں رہنے دیتی بلکہ وسائل اور توجہ کو پسماندہ علاقوں تک بھی لے جاتی ہے۔ جب عوام اپنے نمائندے خود منتخب کرتے ہیں تو وہ اپنے حلقے کے مسائل کے حل کیلئے زیادہ مؤثر انداز میں محنت کرتے ہیں۔ اسی طرح خواتین، نوجوانوں اور محروم طبقات کی نمائندگی بڑھتی ہے جو معاشرتی فضا کو زیادہ متوازن بناتی ہے۔
پھلتی پھولتی جمہوریت میں میڈیا آزاد ہوتا ہے، اور آزاد میڈیا معاشرے کا آئینہ بن جاتا ہے۔ یہ حکمرانوں کے غلط فیصلوں کو بے نقاب کرتا ہے اور عوام تک درست معلومات پہنچاتا ہے۔ جب میڈیا پر قدغن نہ ہو، صحافی خوف کے بغیر سوال اٹھا سکیں، تو معاشرہ زیادہ باشعور اور منظم ہوتا ہے۔
ایسے ماحول میں قانون کی بالادستی محض نعرہ نہیں بلکہ عملی حقیقت بن جاتی ہے۔ پولیس، بیوروکریسی اور عدلیہ کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنا جمہوری معاشروں کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔ جب قانون طاقت کا تابع نہیں رہتا تو لوگ یقین سے کہتے ہیں کہ عدالت میں انصاف ملے گا اور ان کے حقوق محفوظ رہیں گے۔
سیاسی جماعتیں ایک مضبوط جمہوریت میں فکری مقابلہ جاتی ماحول پیدا کرتی ہیں۔ ہر جماعت اپنی پالیسیوں کے ذریعے عوام کو قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ انتخابات کے دوران پالیسیوں کا موازنہ کیا جاتا ہے اور عوام اپنی رائے سے بہتر راستہ منتخب کرتے ہیں۔ یہی سیاسی مسابقت ترقی کا محرک بنتی ہے۔
معاشرہ خوف کے بجائے آزادی کی فضا میں سانس لیتا ہے۔ شہری جانتے ہیں کہ ان کے بنیادی حقوق محفوظ ہیں اور ریاست ان پر زیادتی نہیں کر سکتی۔ یہی احساس امن اور استحکام کا ذریعہ بنتا ہے، جس سے سماج میں خوشحالی اور تعلقات میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔
آخر میں، پھلتی پھولتی جمہوریت ایک ایسی اجتماعی نعمت ہے جو قوم کو عزت، خوشحالی، انصاف، تحفظ اور ترقی فراہم کرتی ہے۔ جمہوریت نہ صرف ملک کے سیاسی ڈھانچے کو مضبوط کرتی ہے بلکہ معاشرے کی اخلاقی اور اجتماعی روح کو بھی جلا بخشتی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جو قوموں کو زوال سے نکال کر ترقی کی بلند ترین منازل تک لے جاتا ہے بشرطیکہ اسے امانت سمجھ کر چلایا جائے اور عوام کی رائے کو حقیقی طاقت سمجھا جائے۔