رات کے سنسان لمحوں میں جب ہوائیں بھی آہستہ چلتی ہیں اور دیواریں تک سسکنے لگتی ہیں تب ایک ایسی خاموشی اترتی ہے جو دل کو خالی کر دیتی ہے۔ یہی وہ گھڑی ہے جب میری روح بے اختیار ماں کی یاد میں لرزنے لگتی ہے۔ ماں… جو محبت کا پہلا لمس بھی تھی اور آخری سہارا بھی۔
وہ نرم دل عورت
جو ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے گھر کی فضا روشن کر دیتی تھی۔
جو ہماری خوشیوں میں یوں گھل مل جاتی تھی جیسے روشنی شمع میں
سادہ مزاج صابر دعا گو… اور ماں ہونے کے سارے معنی اس کی ذات میں سمٹ آئے تھے۔
مگر پھر 2022 کا وہ منحوس پیر
وہ دن جس نے مجھ سے میری کائنات چھین لی۔
ابو کی لرزتی ہوئی آواز آج بھی میرے دل پر نقش ہے
بیٹا… تمہاری امی چھت سے گر گئی ہیں…
یہ جملہ سنتے ہی یوں لگا جیسے میرے اندر کسی نے اچانک ایک گہرا غار کھول دیا ہوایک اندھیرا، جس کا کوئی کنارہ نہیں تھا۔ میں بھاگتا رہا، لرزتا رہا مگر دل کو یہ یقین دلانا مشکل ہو گیا کہ سب خیریت ہو گی
ہسپتال پہنچا تو امی سفید چادر کے نیچے خاموش لیٹی تھیں۔
سر پر پٹی…
آنکھیں بند…
سانسیں ٹوٹی ٹوٹی…
یہ منظر میری روح کو چیرتا گیا۔ وقت جیسے ٹھہر گیا تھا، دیواروں پر لگی روشنیاں بھی بجھی بجھی لگ رہی تھیں ابو کے کپڑوں پر خون کے دھبے تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایک ایسی بے بسی تھی کہ میں چاہ کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھ پایا
رات کی طوالت بڑھتی گئی۔ دعائیں، آہیں، اضطراب… سب کچھ ایک دوسرے میں گم ہو رہا تھا۔
نرس نے آ کر کہا:
حالت بہت خراب ہے… دعا کریں۔
دعا؟
دل تو اس لمحے مٹھی میں آیا ہوا دل تھا، اور ہاتھ کانپ رہے تھے۔ مگر ماں کا نام آتے ہی ہر دل پھر دعا مانگنے لگتا ہے، چاہے ہمت باقی ہو یا نہ ہو۔
فجر کی اذان ہوئی، ہم نماز پڑھ کر لوٹے، مگر امید کی آخری لَو بھی بجھنے کو تھی۔ ڈاکٹرز کی دوڑ، مشینوں کی آواز، اور پھر…
وہ سیدھی لکیر
جو کسی بھی سانس کے نہ ہونے کا اعلان بن کر دل پر گرتی ہے۔
ڈاکٹر نے کہا:
معذرت… آپ کی امی انتقال کر گئی ہیں۔
یہ جملہ میرے وجود پر ہتھوڑے کی طرح لگا۔
میں نہ رو سکا،
نہ چیخ سکا
بس اندر ایک پوری دنیا ڈھیر ہو گئی
گھر لاتے ہوئے امی کا چہرہ دیکھتا رہاوہ چہرہ جو ہر دُکھ پہ میرے لیے ڈھال بن جاتا تھا۔
اور آج وہی چہرہ خاموش تھا…
ایسا خاموش کہ جیسے پوری دنیا رک گئی ہو۔
وقت گزرتا رہا، مگر دل کے زخم اپنی جگہ قائم رہے
ماں کا جانا صرف ایک رخصت نہیں…
یہ روح کا وہ کٹاؤ ہے جو کبھی بھر نہیں پاتا۔
زندگی اپنی رفتار چلتی رہتی ہے، مگر دل کے اندر جو خلا بن جاتا ہے… وہ ایک عمر میں بھی پورا نہیں ہوتا۔
آج بھی جب رات کے سناٹے میں سکوت کچھ زیادہ گہرا ہو جاتا ہے،
تو دل ایک ہی سوال پوچھتا ہے:
ماں کے بچھڑنے کا درد… کیا واقعی کبھی کم ہوتا ہے؟
یا ہم صرف اس درد کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں؟