ٹریفک کا نیا قانون اور ہماری بے شرمی

مغالطوں کی فہرست میں ایک مغالطہ ہے جس کو لاطینی میں Argumentum ad Misericordiam کہتے ہیں، یعنی دلیل کے جواب میں رحم کی دہائی دینا۔

یہ اُس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی شخص اپنے دعوے کی حمایت میں دلیل کی بجائے جذبات کا استعمال کرے۔ مثلاً باؤ جی اسے معاف کر دیں، غریب آدمی ہے، آپکو اللہ نے بہت دیا ہے، نئی گاڑی خرید لیں گے، یہ بیچارہ نیا رکشہ کہاں سے خریدے گا! یا، سر پلیز مجھے نوکری سے نہ نکالیں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میں وعدہ کرتا ہوں آئندہ آپکو دھوکہ نہیں دوں گا۔

اِس مغالطے کا خیال آج وہ قانون پڑھ کر آیا جو پنجاب میں ٹریفک کی خلاف ورزیوں کو روکنے کیلئے لاگو کیا گیا ہے۔ قانون تو خیر ساٹھ سال سے موجود تھا، اب اسے مزید سخت کیا گیا ہے۔ جرمانے بڑھا دیے گئے ہیں اور ٹریفک پولیس کو گرفتاری کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

مسلسل خلاف ورزیوں کی صورت میں لائسنس منسوخ ہو گا اور مالک کی گاڑی نیلام کر دی جائیگی۔ قانون نافذ ہوئے تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے مگر اِس کا ردعمل خوب سامنے آ رہا ہے۔ ٹریفک پولیس کچھ چوکس ہو گئی ہے، چالان زیادہ ہو گئے ہیں اور ٹریفک کی سنگین خلاف ورزیوں پر پرچے بھی کاٹے جا رہے ہیں۔

یہ تمام کارروائیاں خوش آئند ہیں اور اِس پر اطمینان کا اظہار کرنا چاہیے مگر کچھ لوگوں کو چونکہ کوئی اچھی بات ہضم نہیں ہوتی اِس لیے انہوں نے واویلا کرنا شروع کر دیا ہے۔ دلیل اُنکے پاس کوئی نہیں اِس لیے رحم کی دہائی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ ذرا سنیے: ’ لوگوں نے اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے جانا ہوتا ہے (اِس لیے موٹر سائیکل پر دو سے زیادہ سواریاں بٹھانے کی اجازت ہونی چاہیے)، اگر ٹریفک پولیس تھانے میں رکشے بند کریگی تو غریب آدمی کا چولہا بجھ جائے گا (اِس لیے ون وے کی خلاف ورزی کی اجازت ہونی چاہیے)، طلبا کے امتحانات ہیں اور یہ ٹریفک پولیس والے اپنی دیہاڑیاں لگانے میں مصروف ہیں (اِس لیے بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے کی اجازت ہونی چاہیے)۔ میں نے اٹھارہ سال کی عمر میں ڈرائیونگ سیکھ لی تھی اور تقریباً اکیس بائیس سال کی عمر سے گاڑی چلا رہا ہوں، اِن تمام برسوں میں اتنی ریاضت تو کر لی ہے کہ اسٹیرنگ پر پیر رکھ کر بھی گاڑی چلا سکتا ہوں مگر گزشتہ چند برسوں سے جو کچھ میں سڑکوں پر دیکھ رہا ہوں وہ اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

پہلے اِکا دُکا لوگ ون وے کی خلاف ورزی کرتے تھے اور وہ بھی چوری چھپے شرما کر یہ جانتے ہوئے کہ وہ ایک غلط کام کر رہے ہیں مگر اب جسے دیکھو ون وے پر دندناتا پھرتا ہے اور اگر آپ اسے احساس دلانے کی کوشش کریں تو جواب میں گالم گلوچ پر اتر آتا ہے۔ کوئی ایک خلاف ورزی ہو تو بندہ صبر بھی کرلے، کچھ پتا نہیں چلتا کہ کب کہاں سے کوئی گاڑی بھگاتا ہوا آئے گا اور پیدل چلنے والےکو روند کر نکل جائے گا یا کہیں سے بھی کوئی اشارہ توڑے گا اور آپکی گاڑی اُس میں جا لگے گی اور قصور بھی اُلٹا آپکا نکل آئیگا۔

چھوٹے چھوٹے بچے موٹر سائیکلیں چلاتے پھر رہے ہیں، اور یہ اِس لیے کہ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ انہیں کوئی نہیں روکے گا۔ یہ ٹریفک کا مسئلہ اتنا اہم کیوں ہے، اور بھی تو دکھ ہیں زمانے میں ٹریفک کے سوا! جی ہاں، بالکل ہیں، مگر اِس بے ہنگم ٹریفک کے کم از کم تین ہولناک نتائج نکل رہے ہیں۔ آئے روز حادثات کی خوفناک خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں، کبھی کسی گھر کا اکیلا کماؤ پوت گاڑی کے نیچے آجاتا ہے ، کہیں باراتیوں سے بھری بس اُلٹ جاتی ہے تو کہیں سیاحوں کی گاڑی کھائی میں گر جاتی ہے۔ یہ تمام اموات اِس لیے نہیں ہوتیں کہ اِنکا وقت مقرر ہوتا ہے بلکہ اِس لیے ہوتی ہیں کہ ہم نہ ٹریفک قوانین کی پروا کرتے ہیں اور نہ کوئی احتیاطی تدابیر۔ دوسرا نتیجہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کی بجائے ہم نے سڑکیں چوڑی کیں، پہلے آبادی اٹھارہ کروڑ تھی، اب چوبیس کروڑ ہو چکی ہے، اب مزید سڑکیں چوڑی کرنے کی گنجائش نہیں، اِن سڑکوں پر گاڑیوں کا اژدھام ہوتا ہے، اور یہ گاڑیاں بمپر سے بمپر جوڑ کر چلتی چلی جا رہی ہوتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے یہ سلسلہ بڑھتا جائیگا۔ اور یقیناً ایسا ہی ہوگا اگر ہم لوگوں کو گاڑیوں سے اتار کر پبلک ٹرانسپورٹ پر منتقل نہیں کریں گے۔ تیسرا نتیجہ یہ ہے کہ جب آپکا بچہ بغیر لائسنس کے موٹر سائیکل چلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں پوچھتا تو اسے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اِس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں، یہ پہلا سبق ہے جو وہ اپنی عملی زندگی میں سیکھتا ہے، اس کے بعد پھر چل سو چل۔

میں اکثر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں مگر آپ میں سے اکثریت کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں تو اِسکی کیا وجہ ہے۔ کبھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا سوائے اِس جواز کے کہ اِس ملک میں کہیں زیادہ قانون شکنی ہوتی ہے اگر ہم نے چھوٹا سا لائسنس نہیں بنوایا تو کونسی قیامت آ گئی۔ قیامت تو کب کی آ چکی، ہمیں اِسکا اندازہ نہیں ہو رہا۔

اب آ جاتے ہیں حل کی طرف۔ پنجاب حکومت نے قانون میں ترمیم کرکے اسے سخت بنایا، اچھا کیا، لیکن اگر آپ ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی پر پھانسی کی سزا بھی رکھ دیں اور ایک شخص کو بھی وہ سزا نہ ملے تو وہ قانون بیکار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جرمانوں کی نئی شرح کے مطابق جرمانے کریں، ون وے کی خلاف ورزی کرنیوالوں کیخلاف پرچے کاٹیں اور مسلسل قانون کی خلاف ورزیاں کرنیوالوں کی گاڑیاں نیلام کریں، انشااللہ افاقہ ہوگا۔ آخر یہی لوگ ہیں جو موٹر وے پر انسانوں کی طرح گاڑیاں چلاتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو اڑھائی گھنٹے کی فلائٹ کے بعد دبئی اترتے ہیں تو مکمل انسان بن جاتے ہیں، یہ لوگ لاہور، راولپنڈی اور کراچی میں بھی انسان بن سکتے ہیں، بس انہیں پتا ہونا چاہیے کہ ٹریفک کی خلاف ورزی کی معافی کوئی نہیں۔ ڈنڈے کے حل کے علاوہ لوگوں کو آگہی دینے کی بھی ضرورت ہے، اسکولوں کو پابند کیا جائے کہ بچوں کو ٹریفک کے قوانین سکھائیں، کالجوں میں طلبا کے لائسنس چیک کیے جائیں اور انہیں امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہ ہو اگر اُنکے پاس سواری ہو اور اُس کا اجازت نامہ نہ ہو۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر مہم چلانے سے بھی فائدہ ہوگا۔ بھارتی ٹی وی پر اکشے کمار کا بہت دلچسپ اشتہار نشر ہوتا ہے جس میں وہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو شرمندہ کرتا ہے۔

ویسے تو اِس قسم کے لوگ بہت بے شرم ہوتے ہیں مگر اِس کوشش کے ذریعے انہیں شرم دلانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ چند نسخے آزمائیں، اللہ بہتر کرے گا۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے