ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر لاہور میں خوفناک جرمانوں اور سزاؤں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ بہت اچھی بات ہے لیکن پہلے روڈ سیفٹی کے انتظامات مکمل کرلینے چاہئیں۔ کیا لاہور کے تمام ٹریفک سگنلز ٹھیک ہیں؟ زیبرا کراسنگ کی تمام جگہوں پر پینٹ ہو چکا ہے؟ ون وے کے اشارے موجود ہیں؟ یقیناً نہیں۔
چند بڑی شاہراہوں پر یہ سب دیکھنے کو مل جائیگا لہٰذا سٹارٹ بھی انہی سے لینا چاہیے۔ پولیس اہلکاروں کو بھی پابندکریں کہ وہ بھی بغیرلائسنس اوربغیرنمبرپلیٹ موٹرسائیکل مت چلائیں۔ پروٹوکول کے نام پرجوٹریفک روکی جاتی ہے اس پربھی کوئی بھاری جرمانہ عائد کریں۔
عوام کوبھی اس مشن میں شامل کریں اور اعلان کریں کہ کوئی ٹریفک اہلکار ڈیوٹی ٹائم میں موبائل استعمال کرتا پایا جائے تو اسکی تصویر کھینچ کر فلاں نمبر پر بھیجی جائے۔
بھاری جرمانوں کے خوف سے لاہور کی سڑکوں سے رش کم ہوگیا ہے لیکن لوگوں نے گلیوں سے راستے نکال لیے ہیں۔ وہ جو موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کیلئے لین بنائی تھی اسکا کیا بنا؟ کتنے لوگ ہیں جو یہ لین استعمال کر رہے ہیں؟ آبادی کے اژدھام میں گھرے لاہور میں ٹریفک جام ہوناایک معمول بن گیاہے اوپرسے سکولوں کالجوں کی چھٹی کے وقت اور بھی رش بڑھ جاتاہے۔ جو لوگ اپنے بچے بچیوں کو اسکولوں سے لینے جاتے ہیں وہ اپنی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں کہاں پارک کریں؟ مہذب ممالک جیسی سزائیں نافذ کرنے سے پہلے مہذب ممالک جیسے انتظامات ضروری ہیں۔ لائسنس فیس کم کریں، تعلیمی اداروں میں ٹریفک قوانین پر لیکچر شامل کروائیں اور دھواں دینے والی گاڑیوں کو بندکرنے سے پہلے دونمبرموبل آئل بیچنے والوں کا صفایا کریں۔ عوام دعائیں دے گی۔
٭٭٭٭
کراچی میں کھلے گٹرمیں گر کرہلاک ہونیوالے بچے نے سب کے دل دہلادیے ہیں۔یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں، لاہور جیسے شہر میں بھی ایسے گٹرموجود ہیں۔ تین چار ماہ پہلے ہمارے سینئر کرائم رپورٹر فرحان علی خاں فیروز پور روڈ پرکھلے گٹرمیں گرتے گرتے بچے اوربری طرح زخمی ہوکر گھر پڑے ہیں۔ ٹانگوں پر پلستر چڑھا ہوا ہے اور چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ ابھی دو سال پہلے ہی تو کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے کراچی واٹر بورڈ کارپوریشن کے بارے میں خوشخبری سنائی تھی کہ بورڈ نے گٹر کے ڈھکن بنانے کا اپنا پلانٹ لگا لیا ہے جس کے تحت یومیہ 400ڈھکن بناکر بلدیاتی نمائندوں کو فراہم کئے جائیں گے۔ پھر یہ سب کیسے ہوگیا؟ ایک کھلا گٹر، موت کا کنواں کیسے ادارے کی نظر سے اوجھل رہ گیا۔
کوئی ایسا ایمرجنسی نمبر ہی مشتہر کر دیا کریں جس سے لوگ ادارے کو اطلاع دے سکیں کہ فلاں جگہ سے گٹر کا ڈھکن غائب ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جس گٹر نے ایک معصوم کی زندگی نگلی ہے اس گٹر پرڈھکن کی بجائے گتے کا ایک ٹکڑا رکھا ہوا تھا گویا بچے کو پتا ہی نہیں چلا کہ جس گتے کے ٹکڑے پر وہ کھڑا ہو رہا ہے اسکے نیچے موت ہے۔ یہ گتے کا ٹکڑا جس نے بھی رکھا اس جیسا احمق اور سفاک کوئی نہیں ہوسکتا۔ عموماً جہاں کھلے گٹر ہوں وہاں لوگ اینٹیں یا جھاڑیاں وغیرہ رکھ کر واضح طور پراس جگہ کو بند کر دیتے ہیں تاکہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے لیکن یہاں تو لگتا ہے کسی کے پاس اتنا بھی وقت نہیں تھا۔
٭٭٭٭
ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر تقریباً88روپے مہنگا کر دیا گیا ہے۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ گھریلو اور کمرشل سلنڈر میں فرق کیسے کیا جاتا ہے۔ عام طور پر گھروں میں پانچ سے پندرہ کلو والے سلنڈر استعمال ہوتے ہیں۔ اسی سائز کے سلنڈر تنور والے، برگر والے، شوارمے والے بھی استعمال کرتے ہیں۔ گویا گھریلو اور کمرشل مقاصد کیلئے ایک ہی قسم کے سلنڈر زیادہ استعمال ہوتے ہیں تو ان میں تفریق کیسے کی جاتی ہے؟ سوئی گیس حسب روایت ٹاواں ٹاواں آنا شروع ہوگئی ہے، سلنڈر سے لوگ خطرہ محسوس کرتے ہیں حالانکہ اچھی کمپنی کا سلنڈر بہت محفوظ ہوتا ہے۔ یہ جوسلنڈر پھٹتے ہیں یہ وہی ہوتے ہیں جو آپ کو عموماً مارکیٹ میں نظر آتے ہیں۔ ان پر پتا نہیں کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ سرعام کاغذ ٹائپ کے لوہے سے بنے یہ سلنڈر تقریباً ہر علاقے میں فروخت ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں یوٹیوب پر ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والی وڈیو دیکھی جس میں ایک پہاڑی علاقے کے لوگ بڑے سے غبارے میں نوزل لگا کر گیس بھر کر گھر لے جاتے ہیں اور اسی سے کام چلاتے ہیں۔ ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ یہ خطرناک کام کیوں کرتے ہیں؟ ان کا جواب تھا کہ موت تو ایک دن آنی ہی ہے۔
٭٭٭٭
گزشتہ دنوں پاکستان رائٹرز کونسل کے زیراہتمام لاہور میں شام مزاح کا انعقاد کیا گیاجس میں مزاح نگاروں نے اپنے پرلطف مضامین سے محفل میں خوشیاں بکھیریں۔ استاد محترم عطاء الحق قاسمی اس محفل کے صدر تھے۔قاسمی صاحب جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں قہقہوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔قاسمی صاحب خود بھی ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنستے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ مجھ جیسے نالائق کئی دفعہ کوئی جملہ قاسمی صاحب پرلگا دیتے ہیں لیکن جواب میں قاسمی صاحب ایسا قہقہہ عنایت کرتے ہیں کہ سینہ فخر سے پھول جاتاہے۔اس شام مزاح میں بھی ای لائبریری کا ہال بھرا ہوا تھا اور حاضرین دندیاں نکال رہے تھے۔ مرزا یاسین بیگ کی ہمت ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ ہرسال ایک شام مزاح کا اہتمام کرتے ہیں اور لوگوں کی ٹینشن کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھ خاکسار سمیت ڈاکٹر اشفاق ورک، حسین شیرازی، علی رضا احمد، ڈاکٹر عائشہ عظیم، ڈاکٹر اکرم سعید، ڈاکٹر محمد کلیم، ڈاکٹر اکرم سرا اورشاہد ظہیر سید نے اس موقع پرفکاہیہ مضامین پیش کیے۔ ڈاکٹر قمر بخاری خصوصی طور پر فیصل آبادسے اس محفل میں تشریف لائے۔ ڈاکٹر صاحب نہایت بذلہ سنج ہیں اور لفظی توڑ پھوڑ کے ماہر شمار ہوتے ہیں۔میں جب بھی ان سے ملتا ہوں کوئی نہ کوئی ایسا جملہ سناتے ہیں کہ بے اختیار قہقہہ خطا ہو جاتا ہے۔
بشکریہ جنگ