چند دن قبل آئی بی سی اردو میں میرے ماموں زاد بھائی کے کالم جو اکثر شائع ہوتے ہیں، پڑھنے کا موقع ملا، اچھا لگا اور یوں رفتہ رفتہ خود میرے دل میں بھی لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ ان سے اس بارے میں کافی دیر بات چیت ہوئی اور عنایت جان نے نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی بلکہ اپنے تجربات کی روشنی میں رہنمائی بھی کی اور باقاعدگی سے لکھنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا سوچا کیوں نہ قلم تھام کر اپنے ذہن میں مختلف ممالک سے متعلق بیش قیمت معلومات اور مشاہدات میں قارئین کو بھی شریک کروں مجھے امید ہے پڑھنے والے اس سلسلے کو دلچسپ پائیں گے۔ آئیے مدینہ منورہ سے ہی شروعات کرتے ہیں۔
مدینہ منورہ آنا بے شک آسان لیکن اس شہر سے واپس جانا ایک نہایت مشکل کام ہے۔ یہ وہ پاکیزہ مقام ہے جہاں ہر انسان اپنا دل چھوڑ کر آتا ہے۔ مدینے کی گلیوں، ہوا اور روح پرور ماحول سے دل کو ایسی الفت ہو جاتی ہے کہ جب جسم واپس اپنے وطن لوٹتا ہے، تو یہ احساس ہوتا ہے کہ دل تو وہیں رہ گیا ہے۔ مدینہ منورہ سے بے اختیار محبت ہو جاتی ہے اور انسان کا جسم تو واپس آ جاتا ہے مگر دل وہیں رہ جاتا ہے۔
جدید سائنس بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ دل بذاتِ خود سوچنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور شاید دل کی یہی غیر معمولی صلاحیت انسان کو مختلف مقامات کی جانب کھینچتا ہے۔ مدینہ منورہ ایسے ہی مقامات میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے جس سے گہری اور لازوال محبت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا تعلق ہے کہ چاہے آپ کتنی ہی دفعہ مدینہ منورہ کی حاضری دے آئیں، واپسی پر ایک عجیب سی کمی اور بے چینی کا احساس ہوتا ہے۔
وہ بچہ جس نے باب السلام نہ چھوڑا
پرانے وقتوں کی بات ہے۔ برصغیر پاک و ہند سے ایک بہت بڑے عالم دین مدینہ منورہ تشریف لائے۔ وہاں ان کی ملاقات ایک نہایت ہی غریب اور یتیم بچے سے ہوئی۔ بچے نے معصومیت اور پختگی کے ساتھ پوچھا کہ”کیا برصغیر میں باب السلام یعنی وہ گلی جہاں سے زائرین مسجد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں، موجود ہے”؟
مذکورہ عالم نے انکار میں سر ہلایا تو بچے نے فوراً کہا: "میں بھوکا پیاسا رہ لوں گا، مگر یہ گلی نہیں چھوڑ سکتا!” (فضائل حج، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی) یقین کریں ہر دفعہ مدینہ منورہ میں وقت گزارنے کے بعد، میرے بھی عین یہی احساسات ہوتے ہیں۔
مجھے پہلی بار مدینہ منورہ جانے کی توفیق 2011 میں نصیب ہوئی۔ مجھے بے شمار ممالک جانے کا اتفاق ہوا ہے، مگر کسی بھی شہر یا ملک سے اتنی وابستگی نہیں ہوئی جتنی مدینہ منورہ، بالخصوص مسجد نبوی سے ہوئی ہے۔ 2014ء میں میری والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد، تھائی لینڈ میں واکنگ سٹریٹ پر میرا دل بے اختیار پکار اُٹھا: "اے میرے رب! میں یہ کہاں آ گیا ہوں؟ مجھے مکہ مدینہ لے چلیں!” یہ جنوری 2015 کا مہینہ تھا۔
فوری سعودی سفارت خانے سے کورٹسی عمرہ ویزا کی کوشش کی، کامیابی ہوئی اور یوں رمضان المبارک کے مبارک ساعتوں میں بغیر جوتوں کے مدینہ منورہ میں چلنا پھرنا نصیب ہوا۔ ضلع دیر کے ایک دوست کے ڈیرے پر وقت گزارتا تھا، اور صبح صبح مسجد نبوی میں حاضری دیتا رہا، ارے واہ کیا ہی عجیب و غریب لمحات تھے، کیا ناقابلِ بیان اطمینان تھا اور کیا ہی بے مثال اثرات تھے۔
مدینہ کی صبح
میں نے کہیں سنا تھا کہ کسی صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جنت کے موسم کا حال احوال پوچھا تو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جنت کا موسم مدینہ کی صبح کی طرح ہوتا ہے۔” (یہ مضمون ایک حدیث کے قریب ہے، جس میں مدینہ کی صبح کے صاف اور خوشگوار موسم کو اکثر جنت کی ٹھنڈک سے تشبیہ دی جاتی ہے۔) یہ بات سو فیصد درست ہے، کیوں کہ مدینہ منورہ کی صبح واقعی بہت ہی خوبصورت ہوتی ہے۔ مدینہ منورہ میں حرم میں ہی سو جانا اور اذان کے وقت اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدموں کی طرف یا سر کی طرف پانے سے بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔
گزشتہ چودہ برس میں مجھے تیس سے زائد مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے شہر میں جانے کا موقع ملا اور جب بھی موقع ملا، ہر بار خوشی کو پہلے سے زیادہ اور روانگی کو پہلے سے زیادہ مشکل پایا۔ ہر شخص کسی نہ کسی شہر یا گاؤں سے دلی وابستگی رکھتا ہے، مجھے یہ والہانہ وابستگی خوش قسمتی سے مدینہ منورہ کے ساتھ ہوگئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مدینہ منورہ آنا نصیب سے ہے، اس معاملے میں کوشش یا پیسوں سے کہیں زیادہ نصیب اور دعا کا عمل دخل ہے۔
مجھے ایک بار اپنے والد صاحب کے ساتھ مدینہ منورہ جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان کے ساتھ مدینہ منورہ میں گزرے لمحے بہت ہی تابناک، اطمینان بخش، خوبصورت اور محبت بھرے تھے۔ اب والد صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس کے اعلیٰ درجات عطا فرمائے، مگر مسجد نبوی کی وہ تمام جگہیں آج بھی دل بہت اُداس کرتی ہیں جہاں ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا، عربی قہوہ پیا یا قرآن شریف کی تلاوت کی تھی۔
آج بھی باب السلام سے نکل کر ان کے ساتھ جس ماربل کے ٹکڑے پر کھڑے ہو کر تصویر کھنچوائی تھی، جا کر کھڑا ہوتا ہوں اور اس کو چوم لیتا ہوں۔ مجھے وہاں ان کے پاؤں کا احساس ہوتا ہے۔ عرب لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے، مگر وہ شاید نہیں جانتے کہ میں یہ کسی شرک یا بدعت کے طور پر نہیں بلکہ اپنے والد صاحب کے قدموں کے احساس کو پانے کی کوشش میں کرتا ہوں۔
ایک دفعہ سارے خاندان کے ساتھ عمرے پر جانے کا موقع ملا۔ مدینہ منورہ میں جماعت سے قاصر ہوئے تو ہوٹل کے کمرے میں نماز باجماعت ادا کی اور میں نے امامت کروائی۔ نماز سے فارغ ہوئے تو والد صاحب نے کہا: "اپنے امام کے مسلک پہ رہو۔ ہم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پہ نماز ادا کرتے ہیں۔” آج بھی ان کی یہ بات بار بار یاد آتی ہے۔ کچھ دن بعد انہوں نے امامت کروائی۔ انہوں نے پہلی رکعت میں سورۂ مدثر کی چند آیات کی تلاوت فرمائی۔
پچھلے دنوں قرآن شریف کی شان نزول کے تحت ترجمہ پڑھنے کا شرف ملا تو سورۂ مدثر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک طرف بابا جان آنکھوں کے سامنے آتے اور دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اللہ کا مخاطب ہونا کہ: "اے چادر اوڑھنے والے! اٹھو اور تیار ہو جاؤ…” (المدثر 74: 1-2)
اسلام کی سخت آزمائش
ولید بن مغیرہ جیسے لوگ جو دل میں قرآن کریم کو سچا مان کر بھی اسے "انسان کا کلام” کہتے تھے، تو دوسری طرف ابو لہب جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دو شہزادیوں کو طلاق دلوائی۔ (ابو لہب کی عداوت مشہور ہے جس پر سورۂ لہب نازل ہوئی۔) اور اسی ولید بن مغیرہ کا بیٹا خالد بن ولید بعد میں مسلمان ہوتا ہے اور جب اسلام قبول کرتا ہے تو ایک غلام سے قرآن شریف سیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے وہی آیت پڑھاؤ جس میں ولید بن مغیرہ کا ذکر ہے۔ اسلام شاید بہت ہی امتحان ملنے کے بعد ہمیں ملا، بہت آسانی سے، یہی وجہ ہے کہ ہم اس کی کما حقہ قدر نہیں کرتے۔
مدینہ منورہ میں گزرے اوقات، وہاں کی گلیوں میں گھومنے پھرنے، وہاں کی عبادت اور دعاؤں کا اپنا ہی مزہ ہے جو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن بیان شاید نہیں کیا جا سکتا۔ بہت ساری باتیں اور یادیں ایسی ہیں جو میرے دل اور روح میں گردش کر رہی ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا وقت ہوگا جب حسن و حسین رضی اللہ عنہم دوڑ رہے ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کرتے ہوں گے۔ اللہ ہی اللہ
اللہ پاک سب کو مدینہ منورہ بار بار دکھائے۔ آمین