جب آنچل سے پرچم بنے

سب سے پہلے تو وزیرا علیٰ پنجاب مریم نواز کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں یہ دعویٰ کیا کہ وہ ہماری تاریخ کی وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں گرفتار کرکے جیل میں اُن پر بہت ظلم کیا گیا ۔ بندہ ناچیز نے گستاخی کرتے ہوئے اس بیان کو غلط قرار دیا اور بتایا کہ بیگم نصرت بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو ، عاصمہ جہانگیر اور فریال تالپور سمیت کئی دیگر خواتین مریم نواز سے بہت پہلے جیل جا چکی ہیں اور فرخندہ بخاری نے تو لاہور کے شاہی قلعے میں وہ ظلم اور تشدد برداشت کیا جس کے بارے میں مریم نواز سوچ بھی نہیں سکتیں ۔

مریم نواز کے تاریخی لحاظ سے ایک غلط بیان نے ایسی بحث چھیڑی کہ پاکستان کے کونے کونے سے مجھے پیغامات ملے کہ فرخندہ بخاری سمیت اُن ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے نام سامنے لاؤں جنہوں نے اپنی سیاسی جدو جہد کے باعث قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن آج کسی کو اُن کا نام یاد نہیں ۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو تحریک پاکستان کی ایک سرگرم کارکن بیگم جہاں آراء شاہنواز کی بیٹی نسیم جہاں کی گرفتاری بڑی اہم ہے ۔

نسیم جہاں 1951 ء میں راولپنڈی سازش کیس میں اپنے خاوند میجر جنرل اکبر خان اور فیض احمد فیض کے ہمراہ گرفتار ہوئیں بعد ازاں وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئیں اور رکن قومی اسمبلی بنیں۔1978ء میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف تحریک چلائی تو اس تحریک میں صحافیوں نے گرفتاریاں پیش کیں۔ ان میں کچھ خواتین صحافی بھی شامل تھیں ۔ سینئر صحافی فریدہ حفیظ نے اسلام آباد سے لاہور آ کر گرفتاری دی تھی،مسز الزبتھ خالد اور انور سلطانہ کے علاوہ شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی لاہور کی دو طالبات دردانہ یاسمین اور روزی مجید نے بھی لاہور میں گرفتاری دی۔ اس کےعلاوہ تمکنت آراء ، آصفہ رضوی، حمیدہ گھانگرو ، نسرین زہرہ اور کراچی کی لالہ رخ حسین بھی اس تحریک میں گرفتار ہوئیں ۔ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظر بھٹو بھی بار بار گرفتار ہوئیں اور ماں بیٹی نے اپنے آنچل آمریت کے خلاف مزاحمت کے پرچم بنا دئیے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شاہدہ جبین اور ثریا سلطانہ کو لاہور کے شاہی قلعے میں بند کیا گیا ۔

12 فروری 1983 ء کو عاصہ جہانگیر ،حنا جیلانی، بشریٰ اعتزاز احسن، مدیحہ گوہر ، شہلہ ضیاء، نگار احمد ، روبینہ سہگل ، انیسں ہارون ، نسرین اظہر ، خاور ممتاز ، کشور ناہید، شاہ تاج قزلباش ، مہناز رفیع، شہناز وزیر علی سمیت بہت سی خواتین نے مال روڈ لاہور پر جنرل ضیاء کے مارشل لائی قوانین کے خلاف جلوس نکالا اور گرفتار ہو گئیں۔ اس جلوس کے بعد تحریک بحالی جمہوریت میں تیزی آئی اور سندھ میں بھی خواتین سڑکوں پر نکل آئیں۔ سندھیانی تحریک کی بہت سی خواتین ایم آرڈی کی تحریک میں گرفتار ہوئیں جن میں شہناز راہو ، غلام فاطمہ پلیجو ، مارئی پلیجو ، مریم راہو، شہر بانو ، چھ سالہ شبنم پلیجو اور بہت سی دیگر خواتین شامل ہیں۔ معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض،پروفیسر افضل توصیف، عابدہ ملک، بیگم قیوم نظامی، بیگم رانا شوکت محمود سمیت دیگر بہت سی خواتین نے دوران قید تشدد بھی برداشت کیا ۔ ڈی ایس ایف کی کارکن حمیدہ گل کی عمر تو صرف پندرہ سال تھی اور انہیں فوجی عدالت نے چھ ماہ قید کی سزا سنادی ۔ اس تحریک کے دوران ٹنڈو جام کے ایک گاؤں عثمان انٹر سے 19 عورتیں گرفتار کی گئیں جن میں دو حاملہ تھیں ۔

تشدد سے دونوں کا حمل ضائع ہو گیا ۔ ایک عورت کا نام نور خاتون تھا ۔ اُسے گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔نور خاتون کا نام لوگ بھول چکے۔ لیاری کی ماسی سکینہ کو لوگ بھول چکے جو بحالی جمہوریت کی تحریک میں بار بار گرفتار ہوتی رہیں ۔ لاہور کی اماں پٹھانی اور اماں پارس جان کو بھی لوگ بھول گئے جو جمہوریت کی خاطر بار بار جیل گئیں ۔ جنرل ضیاء کے بعد جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی بہت سی خواتین گرفتار ہوئیں ۔مسلم لیگ (ن) کی رہنما بیگم تہمینہ دولتانہ کو چھ ماہ تک کوٹ لکھپت جیل لاہور میں بند رکھا گیا ۔ بیگم کلثوم نواز نے جب بھی سیاسی جلوس نکالنے کی کوشش کی تو انہیں گھر پر نظر بند کردیا گیا۔ ایک دفعہ انہیں اور طاہرہ اورنگ زیب کو راولپنڈی میں نجمہ حمید کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔طاہرہ عبد الله انسانی حقوق کی کارکن ہیں ، انہیں جنرل ضیاء کے دور میں ایک دفعہ اور پھر مشرف دور میں بار بار گرفتار کیا گیا۔حالیہ دور میں انہیں فلسطین کا پرچم اٹھانے کے جرم میں اسلام آباد سے پانچویں دفعہ گرفتار کیا گیا۔

خاتون وکیل ایمان مزاری ایک مرتبہ گرفتار ہو چکیں آجکل انہیں سوشل میڈیا پر طاقتور لوگوں کے ترجمان دوبارہ گرفتاری کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔یہ درست ہے کہ عمران خان کے دور میں مریم نواز کو اڈیالہ جیل میں انکے والد نواز شریف کے ساتھ قید میں رکھا گیا اور ان سے ناروا سلوک بھی ہوا۔ لیکن اب تو مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں ۔ اُن کے دور میں تو پنجاب کی کسی جیل میں کوئی ایک بھی خاتون سیاسی قیدی نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن ڈاکٹر یاسمین راشد اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سمیت کئی خواتین آج سیاسی اختلاف کے باعث مریم نواز کی قیدی بن چکی ہیں۔پیپلز پارٹی اپنے آپ کو شہیدوں کی پارٹی کہتی ہے۔ اس پارٹی کی جمہوریت کیلئے بہت قربانیاں ہیں لیکن بلوچستان میں اس پارٹی کی حکومت نے جھوٹے مقدمات میں کئی خواتین سیاسی کارکنوں کو نظر بند کر رکھا ہے ۔ کل ہی کراچی یونیورسٹی کی ایک خاتون اُستاد نے مجھ سے تقاضا کیا کہ میں نئی نسل کو فرخندہ بخاری پر ہونے والے ظلم و ستم کی تفصیل سے ضرور آگاہ کروں کہ اسے پتہ چلے کہ فوجی ڈکٹیٹر اقتدار میں آ کر کیا کرتے ہیں۔ فرخندہ بخاری نے اپنی آپ بیتی ’’ یہ بازی عشق کی بازی ہے‘‘میں لاہور کے شاہی قلعے میں اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کی تفصیل لکھ دی تھی ۔

وہ اُردو اور فارسی کے ایک پروفیسر شہرت بخاری کی اہلیہ تھیں۔ انہیں ضیا دور میں لاہور کے موہنی روڈ سے انکے گھر سے اٹھا کر شاہی قلعے میں بند کر دیا گیا ۔نہ کسی عدالت میں پیش کیا گیا نہ اہل خانہ کو بتایا گیا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ۔ فرخندہ بخاری سے کہا گیا کہ وہ بیگم نصرت بھٹو کے خلاف یہ بیان دیدیں کہ انہوں نے ہمیں دہشت گردی کی تربیت کیلئے لیبیا بھیجنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ فرخندہ بخاری نے یہ بیان دینے سے انکار کیا تو اُنکے جسم کو جلتے ہوئے سگریٹوں سےداغا گیا اور ان کے بال نوچ لئے گئے ۔ دوسری طرف بیگم نصرت بھٹو اُنہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھیں اور اپنے جلسوں میں فرخندہ بخاری زندہ باد کےنعرے لگوا رہی تھیں۔ان نعروں کے باعث شاہی قلعے میں فرخندہ بخاری پر ظلم اور بڑھ جاتا تھا۔فوجیوں نے فرخندہ بخاری پر اتنا ظلم کیا کہ قید خانے میں تعینات ایک لیڈی پولیس کانسٹیبل نے لاپتہ فرخندہ بخاری کے گھر والوں تک یہ خبر پہنچا دی کہ اُن پر شاہی قلعے میں تشدد ہو رہا ہے ۔ فرخندہ بخاری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے جنرل ضیاء کو بد دعا دی تھی کہ تمہیں قبر بھی نصیب نہ ہو ۔ جنرل ضیاء کی حادثاتی موت کے بعد جب محترمہ بے نظر بھٹو پہلی دفعہ وزیراعظم بنیں تو وہ فرخندہ بخاری کو حکومت میں شامل کرنا چاہتی تھیں ۔

فرخندہ بخاری نے انہیں کہا کہ میں آخری سانس تک آپکے ساتھ رہوں گی لیکن میں نے آپ کا ساتھ وزیر بننے کیلئے نہیں دیا۔ آج آپکو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں فرخندہ بخاری جیسی کتنی بے لوث عورتیں نظر آتی ہیں ؟ آج پیپلز پارٹی ایک ایسے نظام کا حصہ ہے جسکی ایک اسٹیک ہولڈر مریم نواز کہتی کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جنہیں گرفتار کرکے جیل میں ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔یہ بیان صرف غلط نہیں تکلیف دہ بھی ہے۔ ہم نے مریم نواز کی گرفتاری کی بھی مذمت کی تھی اور آج انکی حکومت نے جن خواتین سیاسی رہنماؤں کو جیلوں میں بند کر رکھا ہے انکی گرفتاری کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ جن گرفتار ہونے والی خواتین کا اس مختصر تحریر میں ذکر نہیں آسکا اُن سے معذرت اور مریم نواز کی خدمت میں اسرارالحق مجاز کا یہ شعر پیش ہے

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے