یادیں، موسم اور اُمید

مجھے افغانستان سے دلی لگاؤ ہے اور اس کے ٹھوس اسباب ہیں کیونکہ افغانستان سے ہم تاریخی، سماجی، مذہبی اور جغرافیائی رشتوں میں منسلک ہیں۔ زندگی میں دو بار وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ دونوں مرتبہ محترم آفتاب احمد خان شیرپاؤ صاحب کے ہمراہ جانے کا موقع ملا۔

پہلی مرتبہ 2013 میں، پاکستان افغانستان پارلیمانی وفد کے ہمراہ اور دوسری مرتبہ، محترم اشرف غنی صاحب کی حلف برداری کے وقت دونوں مرتبہ کابل میں قیام کیا۔ ان دوروں کے دوران زیادہ تر سرینا ہوٹل میں ہی ٹھہرا مگر قریبی علاقہ کرغہ اور کابل شہر کی سیر کے لیے معقول وقت میسر آیا۔

افغانستان کے بارے میں بچپن سے ہی والد صاحب سے بہت کچھ سننے کو ملا تھا۔ وہ اپنے جلال آباد کے قیام کا ذکر کرتے، دادا حضور کے بارے میں بتاتے تھے کہ کیسے انہوں نے کنڑ، کابل، اور پھر جلال آباد میں قیام کیا۔

والد صاحب کہا کرتے تھے کہ اب بھی سادات گھرانے وہاں پر بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں بالخصوص کنڑ میں۔ کنڑ، دیر باجوڑ کے قریب پڑتا ہے، لہٰذا سرحدوں کی بندش سے پہلے یہاں عام طور پر لوگوں میں آنے جانے کا رواج تھا۔ والد صاحب فرماتے، "میں گھوڑے پہ جلال آباد تک جاتا۔” اور یہ سن کر مجھے بھی وہاں جانے کا شوق ابھرتا تھا۔

مگر موقع تب ملا جب بات گھوڑوں کے دور سے نکل کر جہاز تک آ گئی۔ دیر چونکہ 1968 میں پاکستان کا حصہ بنا، اِس لیے اس سے پہلے آزاد ریاست کی حیثیت سے افغانستان جانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا تھا اور اب بھی نہیں مگر سکیورٹی وجوہات اِن دو رشتہ دار ملکوں کے حالات کو سنبھلنے ہی نہیں دیتی۔ تاہم اس وقت میں سیکورٹی صورتحال سے صرف نظر کرتے ہوئے افغانستان سے متعلق اپنے چند ذاتی تجربات قارئین کے ساتھ شیئر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

مجھے کابل میں چلتی ہوئی تیز اور خطرناک ہوا بہت اچھی لگتی ہے۔ وہاں کے پہاڑ اور پہاڑوں پہ بنے مٹی کے بنے گھر، یزد (ایران) اور صنعاء (یمن) شہر کی یاد دلاتے ہیں۔ اگرچہ بلخ اور قندھار شہر میں بھی اسی طرح کی مٹی کے گھر بنے ہیں، مگر کابل کے گھر اپنی ساخت میں زبردست ہیں۔

ایک رات کابل کے کچھ پشتون دوستوں کے ہمراہ کابل شہر کے انہی پہاڑوں پر بنے گھروں کی طرف چل پڑے۔ رات کو کابل کے پہاڑوں سے کابل شہر کا نظارہ کرنا ایک سحر انگیز تجربہ تھا۔ چلتے چلتے ہم پہاڑ پہ ایک جانب رُکے جہاں چند گھر بھی موجود تھے… اِسی اثنا میں وہاں کا ایک مقامی آدمی آیا۔ پہلے انہوں نے پوچھا کہ کون ہیں؟ مگر جب پتہ چلا کہ مہمان ہیں اور شہر کا نظارہ کرنے آئے ہیں تو جلدی قہوہ پیش کیا۔ یہ مہمان نوازی کے اصول آپ کو پشتونوں اور افغان قبائل میں ہر جگہ ملیں گے، چاہے وہ افغانستان میں ہو یا پاکستان میں یا دنیا کی کسی بھی جگہ۔

کابل شہر کی صبح بھی بہت منفرد ہوتی ہے۔ پھول بازار سے گزرتے ہوئے، جگہ جگہ آپ کو تکّوں کی دکان بھی دیکھنے کو ملیں گی جس کی بینی بینی خوشبو بہت اچھی لگتی ہے۔سیخ پہ بنے تکّے اور اُس کے ساتھ قہوہ پینا الگ ہی مزا ہے۔چونکہ فجر کے بعد چہل قدمی میری عادت ہے لہذا باقاعدگی سے نکلتا تھا۔ بازار سے بھی گھوم آتا تھا اور سیخ پہ بنے تکّوں کا لطف بھی اٹھاتا تھا۔ چونکہ کابل میں میرا قیام سرینا ہوٹل میں تھا اور بازار ہوٹل سے زیادہ دور نہیں تھا، اِس لیے اکثر بازار جاتا تھا۔

کابل اب بہت گنجان آباد ہے۔

کابل میں جدید اور اونچی عمارات کی بہتات ہے۔ البتہ ظاہر شاہ بادشاہ کا محل ٹوٹ پھوٹ کے باوجود بھی بہت تابناک محسوس ہوتا ہے۔ کابل 60 کی دہائی میں پیرس اور یورپ کے شہروں سے کم نہ تھا۔ دہائیوں پر محیط جنگوں کے باوجود، اِس شہر کا جاہ و جلال سر چڑھ کر بولتا ہے۔ مجھے اب بھی کابل میں گزرے دن بہت یاد آتے ہیں۔ زندگی نے موقع دیا تو اِس شہر میں ایک مہینے تک قیام کا ارادہ ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ کابل اور اسلام آباد آپس میں بہترین دوست اور اچھے پڑوسی بن کر رہیں۔

افغانستان اور پاکستان دو برادر اسلامی اور قریب ترین پڑوسی ممالک ہیں۔ 2600 کلومیٹر سے زیادہ بڑی سرحد پر لاکھوں لوگ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں۔ لوگ شناختی کارڈ تو افغانستان کا رکھتے ہیں مگر آباؤ اجداد کے قبور پاکستان میں ہیں اور عین یہی صورتحال پاکستانی لوگوں کی بھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کی اور صحیح سمجھے، تو ہم سے زیادہ اچھے پڑوسی اور دوست اور کوئی نہیں ہو سکتے۔

چند دن پہلے افغانستان واپس جانے والے قافلوں کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کہا جائے۔ کچھ ایسے تھے جو پاکستان میں پیدا ہوئے، افغانستان کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ کچھ کے اپنے پاکستان میں فوت اور تدفین ہوئی تھی سوچئے، ہم اتنے قریب ہیں، ہم اتنے وابستہ ہیں لیکن طرح طرح کی اویزیشیں ہمارے تعلقات پر زیادہ حاوی ہوگئی ہیں کیوں نہ ایک دوسرے کو سمجھیں، سمجھائیں اور قبول کریں؟ ہمارے مسائل یکساں ہیں۔ روایات ایک جیسی ہیں، دین ایک ہے۔ قبائل مشترک ہیں، رسم و رواج میں مماثلت ہے۔ پھر لڑائی کیوں؟ دوستی کیوں نہیں ؟ خیر بات دور چلی گئی۔

جہاں تک کابل کا موسم ہے، تو بھئی یہاں بہت سردی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ دُنبے کا گوشت بہت پسند کرتے ہیں اور رغبت سے کھاتے ہیں۔ میں نے بہت ساری جگہوں پر دُنبے کا گوشت کھایا ہے مگر جو کابل میں دُنبے کا گوشت کھایا، وہ آج بھی منہ میں پانی بھر دیتا ہے۔ اپنی لذت اور مزے میں بے مثال بھی۔ یہاں کا پلاؤ اور روش بھی قابلِ قدر ہیں البتہ مجھے باربی کیو زیادہ پسند آیا۔

کرغہ کابل سے 20 منٹ کے فاصلے پہ، راول ڈیم جیسی خوبصورت جگہ ہے۔ سامنے کابل کے بلند پہاڑ ہیں۔ مجھے دونوں مرتبہ سردی کے مہینوں میں جانے کا موقع ملا۔ دونوں دفعہ پہاڑوں کی چوٹیوں پہ برف کی چادر، کرغہ میں پانی کے تالاب کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے لیے امن اور دوستی کے علاؤہ کوئی بہتر آپشن نہیں۔ یہی راستہ ہمارے تمام مسائل کا حل ہے کہ ہم دو بہترین دوست بن کر رہیں۔ ہمارے درمیان محبت ہو، تجارت ہو، کھیل کود کے میدان گرم ہوں، دو طرفہ تعلیم اور سفر کے مواقع ہوں، سماجی اور ثقافتی ورثے کا تبادلہ ہوں اور یوں ہمارے درمیان ایسے تعلقات قائم ہوں کہ جن کی مثال دنیا میں دی جائے۔

اللہ سے دعا ہے، دونوں اطراف دیرپا امن قائم ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے