بے روزگاری ایک قومی کھیل

کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں ضرورت اکثر مشورے پیدا کرتی ہے۔ آپ جس سے بھی پوچھیں، ہر بندہ بے روزگار کو ایسا مشورہ دیتا ہے جیسے اسے حکومتِ پاکستان نے خصوصی طور پر’’مشیرِ بے روزگاراں‘‘مقرر کیا ہو۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ بھائی! کوئی نوکری کا پتہ ہو تو بتاؤ۔ وہ کہنے لگا: ’’قاسمی صاحب! آج کل نوکری ڈھونڈنا آسان تو نہیں، مگر آپ چاہیں تو میں دعا کرا دوں۔‘‘ میں نے کہا: ’’بھائی! دعا تو میں بھی کرا سکتا ہوں، مجھے نوکری چاہیے، استخارہ نہیں!‘‘وہ فوراً طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا:’’پھر تو معاملہ مشکل ہے صاحب! آج کل نوکریاں اس رفتار سے غائب ہو رہی ہیں جیسے بجلی کے بل وقت پر آتے ہی خوشی غائب ہو جاتی ہے۔‘‘ سچ پوچھیے تو بے روزگاری ہماری قوم کی واحد ایسی چیز ہے جو یونیفارم کے بغیر بھی ہر جگہ نظر آ جاتی ہے۔ بسوں میں، چائے کے ڈھابے پر، گھر کی چھت پر بیٹھے ہوئے فلاسفروں میں، بلکہ کچھ گھروں میں تو ماشااللّٰہ یہ حالات ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے ہر کمرے میں الگ سے بے روزگاری کا نمائندہ بیٹھا ہے۔ ہمارے محلے کا ایک نوجوان روز صبح تیار ہو کر نکلتاتھا۔ میں سمجھا کہ شاید دفتر جاتا ہے۔

ایک دن پوچھ ہی لیا کہ بیٹا کہاں جا رہے ہو؟ مسکرا کر کہنے لگا: ’’انکل! دفتر ہوتا تو جاتا… میں تو بس یہی تاثر برقرار رکھنے نکل جاتا ہوں کہ شاید میں کچھ کر رہا ہوں۔ ورنہ امی روز گھر میں پوچھتی ہیں کہ بیٹا! زندگی میں آگے بڑھو گے کب؟‘‘ میں نے کہا: ’’بیٹا! تم نکلو، لوگ… تاثر بھی رکھتے ہیں اور عزت بھی۔ اصل مسئلہ تو وہ ہے جو سارا دن گھر میں بیٹھ کر حکومتی پالیسیوں کا تجزیہ کرتا ہے… وہ بھی بغیر کسی درخواست پر۔ ہمارے پچھلے محلے میں ایک نوجوان کو ہر فن مولا سمجھا جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ بے روزگار رہ رہ کر اس نے تقریباً ہر چیز کا تجربہ کر لیا تھا۔ کبھی مرغیوں کا کاروبار، کبھی یوٹیوب چینل، کبھی دیسی انڈوں کی فروخت، کبھی آن لائن ٹیوشن، حتیٰ کہ کچھ عرصہ ہمسایوں کیلئے رشتے تلاش کرنے کا کام بھی کیااور خوش قسمتی سے اس میں اتنی ناکامیاں ہوئیں کہ لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ اس کا خود شادی شدہ نہ ہونا بھی اسی کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔بے روزگاری کے شکار یہ دوست خاصے فلسفی بھی ہو جاتے ہیں۔ ایک دن کہنے لگا:’’قاسمی صاحب! مجھے لگتا ہے انسان کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ خود سے مطمئن ہو۔‘‘میں نے کہا: ’’بیٹا! پہلے نوکری ڈھونڈ لو، مطمئن بعد میں ہونا۔ یہ جو بے روزگاری ہے نا، یہ انسان کو قبل از وقت دانا بنا دیتی ہے۔‘‘ایک اور دوست نے مجھے مشورہ دیا کہ ’’قاسمی صاحب! آج کل آن لائن کام چل رہا ہے۔ آپ بھی فری لانسنگ کر لیں۔‘‘میں نے پوچھا:’’چلو یہ تو بتاؤ کہ فری لانسنگ میں بندہ کرتا کیا ہے؟‘‘جواب ملا:’’قاسمی صاحب! کچھ بھی نہیں… بس سارا دن گھر والوں کو یہی بتاتا رہتاہےکہ کام آن لائن ہے!‘‘ایک صاحب تو کچھ زیادہ ہی حساس نکلے۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے: ’’فی الحال بے روزگار ہوں مگر ایکٹیو بے روزگار۔‘‘کوئی پوچھے بھائی ایکٹیو بے روزگار کیسے؟ جواب ملا: ’’جی بس روز تین جگہ درخواستیں ڈال کر، دو جگہ فون کر کے، اور ایک جگہ منت کر کے تھک جاتا ہوں۔ہمارے ملک کا مسئلہ صرف بے روزگاری نہیں… زیادہ بے روزگار ہیں۔ اتنے کہ شادی کے کارڈ پر ’’منجانب‘‘لکھنے کے بعد دلہن اور دلہا کے پچیس پچاس بے روزگار کزنز کے نام اتنی شان سے لکھے ہوتے ہیں جیسے یہ ملک کے مالیاتی مشیر ہوں۔

شادیوں پر بھی بے روزگاری پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ نوجوان ہوتے ہیں جو بار بار سالن لینے جاتے ہیں تاکہ محفل میں مصروف دکھائی دیں، دوسری طرف وہ شوقین مزاج بے روزگار جو جیب میں اپنا سی وی رکھ کر گھوم رہے ہوتے ہیں، شاید کسی انکل کو ترس آ جائے۔کچھ لوگ بے روزگاری کے باوجود اتنے بااعتماد ہوتے ہیں کہ ان کی خود اعتمادی دیکھ کر لگتا ہے شاید ملک نے ان سے قرضہ لیا ہے۔ ایک روز ایک نوجوان بڑے فخر سے کہنے لگا:’’سر! میں بے روزگار ضرور ہوں مگر بے مقصد نہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’شاباش بیٹا! مقصد اگر نوکری ہوتا تو مزہ آ جاتا، مگر خیر…بڑے لوگوں کے خواب بھی بڑے ہوتے ہیں۔‘‘ایک دن ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے:’’قاسمی صاحب!

آپ اتنےکالم لکھتے ہیں، کوئی ایسا کالم لکھیں کہ حکومت بے روزگاروں کے لیے کچھ کرے۔میں نے کہا:’’ حکومت تو بے روزگاروں کیلئے اتنی فکر مند ہے کہ بجٹ میں بھی وہی چیزیں بڑھاتی ہے جو بے روزگار آسانی سے خرید ہی نہ سکیں۔‘‘آپ کبھی کسی بے روزگار نوجوان کو مشورہ دے کر دیکھیں، وہ ایسے سنتا ہے جیسے آپ سرکس میں شیر کو صبر کی تلقین کر رہے ہوں۔ ہر مشورے کا اُس کے پاس ایک جواب ضرور ہوتا ہے: سر آج کل مارکیٹ سلو ہے… لوگ ہائرنگ نہیں کر رہے… حالات عجیب ہیں…ملک میں بے یقینی ہے…گویا اگر اسے آج ہی وائٹ ہاؤس کی ملازمت بھی پیش کر دی جائے تو وہ بڑی سنجیدگی سے کہہ دے:’’سر! امریکہ کی اکانومی بھی تو Unstable ہے نا!‘‘ہمارے ملک میں بے روزگاری اتنی عام ہے کہ لگتا ہے جیسے قوم نے قومی کھیل بدل کر’’نوکری ڈھونڈو‘‘رکھ لیا ہے۔ کہیں کوئی نوکری کا اشتہار آ جائے تو لوگ ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے مفت بریانی کی دیگ کا اعلان ہو گیا ہو۔

ہمارے محلے کے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے: ’’بیٹا! روزگار مقدر کی بات ہے۔‘‘میں نے کہا: ’’چچا! مقدر تو ہے مگر کچھ لوگ قسمت کو بھی ڈرا دیتے ہیں۔‘‘آخر میں مجھے اپنا ایک بے روزگار دوست یاد آ گیا جو ہر شام کہتا: یار قاسمی! اللّٰہ کسی کو بے روزگار نہ کرے… مگر ہاں، وقت مل جاتا ہے سوچنے کا، دنیا سمجھنے کا، اور سب سے بڑھ کر… چائے پینے کا! میں نے کہا: ’’بیٹا، بے روزگاری میں چائے ضرور پیتے رہو… یہی واحد چیز ہے جو ہماری قومی معیشت اور قومی اعصاب دونوں کو سنبھالے ہوئے ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے