یہ منظر ہے ، 483 قبل مسیح کا ،مقام تھا ،پاوا ۔
بدھ، بھکشوؤں اور اپنے شاگردوں سے مخاطب تھے ۔ بدھ نے کہا ،
تمام مرکب چیزیں فانی ہیں ، جو بنا ہے ،اُس نے فنا ہونا ہے ۔ غفلت میں مت رہنا ۔ہوشیاری اور بیداری سے اپنی نجات کی کوشش کرتے رہنا۔
آنند نے روتے ہوئے عرض کیا،
آپ کے بعد ہم کس کے سہارے رہیں گے؟
بدھ نے کہا،
اے آنند! میں نے جو سچ تمہیں دیا ہے،وہ سچ، دھرم ہے ۔
میرے بعد کوئی گرو تلاش نہ کرنا۔ دھرم ہی تمہارا گرو ہوگا اور تم خود اپنا سہارا بنو گے۔
وہی راستہ جسے میں نے آزمودہ طور پر تمہیں دکھایا ہے، تمہیں دکھ اور بندھنوں سے آزاد کرے گا۔
بدھ خاموش ہو گئے۔
چنڈا نامی لوہار نے بدھ کو کھانا پیش کیا ۔
کھانا کھانے کے بعد بدھ ، پاوا سے کشی نگر کی جانب چل پڑے ۔ جہاں پہنچ کر ،بدھ دو سالا/سال ، درختوں کے درمیان ،دائیں کروٹ لیٹے اور باقاعدہ مراقبے کی حالت میں آخری سانس لی۔
اس داستان یا واقعے کو بدھ مت میں مرکزی اور مقدس حیثیت حاصل ہے ۔
جسے مہاپری نروان کہا جاتا ہے۔ نروان کے معنی ،خواہشات ،دکھ اور جنم و مرگ سے نجات اور مہاپری نروان سے مراد وہ آخری نروان جو کسی بدھ کو موت کے بعد حاصل ہوتا ہے ،جس کے بعد وہ دوبارہ جنم نہیں لیتا ۔اس کی یاد میں دنیا بھر میں مہاپری نروان بدھا کے نام سے مجسمے بنائے جاتے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ یہ مجسمے ،علامت ہیں سکون کی ،نجات کی اور ابدی خاموشی کی ۔
یہ اکیسویں صدی کا منظر ہے،سردی کی نرم دھوپ ہے خوشگوار ہوا کے نرم جھونکے ہیں ، پہاڑوں کے دامن میں ،میں اپنے دوستوں کے ساتھ ،بھمالہ میں ہوں۔ میرے سامنے ایک نہایت ہی دلکش مصلوب قسم کا سٹوپا ہے ۔ سٹوپا کے پیچھے خانقاہ ہے ،جہاں صدیوں پہلے علم ،ادب ،فسلفہ ،منطق اور روحانیت پر مکالمے ہوتے اور میرے پیچھے دیگر چھوٹے بڑے سٹوپاز ہیں ،جو سجے ہیں ، صدیوں پرانے عظیم الشان گندھارا آرٹ سے۔ یہیں سے کنجور پتھر کا بنا ،14 میٹر لمبا ، مہاپری نروان بدھا کا مجسمہ ،ملا ہے ۔ تیسری صدی عیسوی میں جب کسی مجسمہ ساز کی محبت ، عقیدت میں ڈھلی تو اس نے یہ شاہکار تخلیق کیا۔ وہ مجسمہ ساز ، آج نامعلوم ہے لیکن اُس کے دست ہنر سے بنا، مجسمہ آج بھی اُس کے ہنر اور عقیدت کا حوالہ ہے۔